سورة المآئدہ - آیت 110

إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَىٰ وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدتُّكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا ۖ وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ ۖ وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي ۖ وَتُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ بِإِذْنِي ۖ وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِي ۖ وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَنكَ إِذْ جِئْتَهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور (اس وقت کو سامنے لاؤ) جب اللہ تعالیٰ عیسیٰ[١٥٨] ابن مریم سے کہے گا : عیسیٰ ! میرے اس احسان کو یاد کرو جو میں نے تم پر اور تمہاری والدہ پر کیا تھا۔[١٥٩] جب میں نے روح القدس سے تمہاری مدد کی کہ تو گہوارے میں اور بڑی عمر میں لوگوں سے یکساں کلام کرتا تھا۔ اور جب میں نے تمہیں کتاب و حکمت اور تورات اور انجیل سکھلائی۔ اور جب تو میرے حکم سے مٹی سے پرندے کی شکل و صووت بناتا اور اس میں پھونکتا تھا تو وہ میرے حکم سے سچ مچ پرندہ بن جاتا تھا۔ اور تو مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو میرے حکم سے تندرست کردیتا تھا اور جب تو مردوں کو میرے حکم سے (قبروں سے) نکال کھڑا کرتا تھا اور جب تو بنی اسرائیل کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آیا تو میں نے ہی تجھے بنی اسرائیل سے بچایا تھا۔ پھر ان میں سے جن لوگوں نے انکار کردیا تھا وہ یہ معجزات دیکھ کر کہنے لگے :’’ یہ تو صاف صاف جادو ہے‘‘

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٥٨] یعنی پہلے تمام انبیاء سے اجتماعی طور پر پوچھا جائے گا کہ ان کی قوم نے انہیں کیا جواب دیا تھا یا ان کی دعوت کو کس حد تک قبول کیا تھا پھر ہر نبی سے الگ الگ یہی سوال ہوگا اور عیسیٰ علیہ السلام کے سوال و جواب کو بالخصوص اس لیے ذکر کیا گیا کہ آپ کی امت نے مستقلاً کئی خدا بنا لیے تھے۔ [١٥٩] سوال و جواب سے پیشتر اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام پر اپنے احسانات کا تذکرہ کیا ہے یہ احسانات قرآن کریم میں جا بجا مذکور ہیں۔ ان میں اکثر اس مقام پر یک جا کر کے ذکر کیے گئے ہیں۔ اور وہ حسب ذیل ہیں۔ (١) اللہ تعالیٰ کے عیسیٰ اور ان کی والدہ پر احسانات :۔ عیسیٰ علیہ السلام پر سب سے بڑا احسان اور ان کی سب سے بڑی فضیلت یہ تھی کہ آپ نفخہ جبریلیہ سے پیدا ہوئے تھے آپ کی پیدائش فطری طریق سے ہٹ کر خرق عادت اور معجزانہ طور پر واقع ہوئی تھی۔ اسی لیے آپ کو روح اللہ اور کلمۃ اللہ کہا جاتا ہے۔ (٢) آپ کی والدہ مریم پر اللہ کا یہ احسان تھا کہ آپ کو یہودیوں کی تہمت سے بری قرار دیا۔ (٣) عیسیٰ علیہ السلام بالکل چھوٹی عمر میں، جبکہ بچہ بولنا سیکھتا بھی نہیں، اس طرح کلام کرتے تھے جیسے ایک پختہ عقل والا آدمی گفتگو کرتا ہے۔ (٤) آپ بارہ سال کی عمر میں تورات کی عبارتیں زبانی یوں فر فر سنا دیا کرتے تھے کہ یہود کے بڑے بڑے علماء اور فریسی یہ صورت حال دیکھ کر دنگ رہ جاتے تھے۔ پھر تیس سال کی عمر میں آپ کو نبوت عطا ہوئی، اور آپ پر انجیل نازل ہوتی رہی۔ (٥) معجزات عیسیٰ:۔ شاید یہ نفخہ جبریلیہ ہی کا اثر تھا کہ آپ مٹی کا کوئی پرندہ بناتے پھر اس میں پھونک مارتے تو وہ پرندہ اللہ کے حکم سے سچ مچ کا جاندار پرندہ بن کر اڑنے لگتا تھا۔ (٦) نیز اسی نفخہ جبریلیہ کے اثر یا روح القدس کی تائید سے مادر زاد اندھے کی آنکھوں پر ہاتھ پھیرتے تو وہ اللہ کے حکم سے بینا بن جاتا تھا اور اس کی آنکھیں بالکل ٹھیک ہو کر دیکھنے لگتی تھیں۔ (٧) اگر آپ کسی برص والے یعنی کوڑھی کے بدن پر ہاتھ پھیرتے تو وہ اللہ کے حکم سے بالکل تندرست ہوجاتا تھا۔ (٨) آپ کسی قبر میں پڑے ہوئے مردے کو زندہ ہو کر اٹھ کھڑا ہونے کو کہتے تو وہ اللہ کے حکم سے قبر سے نکل کر کھڑا ہوجاتا تھا۔ (٩) اتنے ڈھیروں معجزات کے باوجود بنی اسرائیل نے آپ کو جھٹلا دیا اور کہنے لگے کہ تم جادوگر ہو اور تمہارے یہ کارنامے سب کچھ جادو ہی کا کرشمہ ہیں لہٰذا وہ تمہارے درپے آزار ہوگئے اور تمہیں صلیب پر چڑھانے کی کوشش کی مگر اللہ نے انہیں ان سے بچا کر اپنے پاس اٹھا لیا تھا۔ (١٠) جب بنی اسرائیل کے سب لوگ ان کے دشمن بن گئے اور کوئی ایمان نہ لایا تو حواریوں کو اللہ نے الہام کیا تھا کہ مجھ پر اور آپ پر ایمان لا کر آپ کی ہر طرح سے مدد اور تعاون پر کمر بستہ ہوجائیں۔ غرض اللہ تعالیٰ نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام پر جو احسانات کیے تھے وہ اس لیے جتلائے جا رہے ہیں کہ ان میں اشارتاً یہ بات پائی جاتی ہے کہ اگر وہ اللہ یا اللہ کے بیٹے ہوتے تو انہیں ان احسانات کی کیا حاجت تھی؟ نیز سیدنا عیسیٰ کی ولادت سے لے کر ان کو اپنے ہاں اٹھانے تک کے تمام واقعات ایسے ہیں جو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی عبدیت پر دلالت کرتے ہیں۔