سورة المآئدہ - آیت 96

أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ ۖ وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

تمہارے لیے سمندر [١٤٣] کا شکار اور اس کا کھانا حلال کیا گیا ہے۔ تم بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہو اور قافلہ والے [١٤٤] زاد راہ بھی بنا سکتے ہیں۔ البتہ جب تک حالت احرام میں ہو تو خشکی کا شکار تمہارے لیے حرام کیا گیا ہے اور اللہ (کے احکام کی خلاف ورزی کرنے) سے بچتے رہو جس کے حضور تم جمع کئے جاؤ گے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٤٣] یہ اجازت محرم اور غیر محرم سب کو ہے۔ محرم صرف خشکی کے جانوروں کا شکار نہیں کرسکتا۔ سمندر کے شکار کی اجازت میں غالباً مصلحت یہ ہے کہ اگر سمندر میں زاد راہ ختم ہوجائے تو سمندر میں مزید زاد راہ کا حصول خشکی کی نسبت بہت مشکل ہوتا ہے۔ ہر طرح کا سمندری جانور حلال ہے :۔ اس آیت کی رو سے تمام سمندری جانور حلال ہیں۔ البتہ مینڈک اور مگر مچھ یا اسی قبیل کا کوئی اور جانور جو پانی اور خشکی دونوں جگہ زندہ رہ سکتا ہو ان کی حلت میں اختلاف ہے۔ مزید یہ کہ ان سمندری جانوروں کو ذبح کرنے کی بھی ضرورت پیش نہیں آتی۔ کیونکہ وہ پانی سے جدا ہوتے ہی مر جاتے ہیں اور اگر چند لمحے زندہ بھی رہیں تو بھی انہیں ذبح کرنے کی ضرورت نہیں جیسے مچھلی خواہ وہ زندہ ہو یا مر چکی ہو ہر حال میں حلال ہے۔ اور اگر زندہ مچھلی کو پانی سے نکال لیا جائے تو وہ چند ساعت بعد خودبخود مر جاتی ہے۔ [١٤٤] سمندری وہیل مچھلی اور غزوہ سیف البحر :۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (٨ ھ میں) سمندر کے کنارے ایک لشکر بھیجا اور سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو اس کا سردار مقرر کیا۔ یہ تین سو آدمی تھے اور میں بھی ان میں شامل تھا۔ راستہ میں ہمارا زاد راہ ختم ہوگیا۔ ابو عبیدہ نے حکم دیا کہ سب لوگ اپنا اپنا توشہ لا کر اکٹھا کریں۔ ایسا کیا گیا تو کل زاد راہ کھجور کے دو تھیلے جمع ہوئے۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ ان میں سے ہم کو تھوڑا تھوڑا دیا کرتے۔ حتیٰ کہ وہ بھی ختم ہونے کو آئے تو فی کس ایک کھجور یومیہ دینے لگے۔ وہب کہتے ہیں کہ میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ایک کھجور سے تمہارا کیا بنتا ہوگا۔ انہوں نے کہا جب وہ بھی نہ رہی تب ہمیں معلوم ہوا کہ وہ ایک کھجور بھی غنیمت تھی۔ پھر جب ہم سمندر پر پہنچے تو دیکھا کہ پہاڑ کی طرح ایک بہت بڑی مچھلی پڑی ہے۔ لشکر کے لوگ اٹھارہ دن تک اسی میں سے کھاتے رہے۔ پھر ابو عبیدہ نے حکم دیا۔ اس کی دو پسلیاں کھڑی کی گئیں تو اونٹ ان کے نیچے سے نکل گیا اور پسلیوں کی بلندی تک نہ پہنچا۔ (بخاری۔ باب الشرکۃ فی الطعام وغیرہ)