سورة المآئدہ - آیت 29

إِنِّي أُرِيدُ أَن تَبُوءَ بِإِثْمِي وَإِثْمِكَ فَتَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ ۚ وَذَٰلِكَ جَزَاءُ الظَّالِمِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

میں چاہتا ہوں کہ تو میرا اور اپنا گناہ سب کچھ سمیٹ لے اور اہل دوزخ سے ہوجائے [٦١] اور ظالم لوگوں کی یہی سزا ہے''

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٦١] یعنی ناحق قتل کرنے والے کی سزا صرف یہی نہیں ہوتی کہ اسے اس جرم کے عوض جہنم میں ڈال دیا جائے بلکہ اس کے ساتھ مقتول کے گناہ بھی اس کے کھاتے میں ڈال دیئے جاتے ہیں۔ چنانچہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اگر مجھے دو لشکروں یا دو صفوں میں سے کسی ایک صف میں زبردستی لایا جائے پھر کسی شخص کی تلوار میری گردن اڑا دے یا کسی کا تیر مجھے مار ڈالے تو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’قاتل اپنے اور تیرے گناہ سمیٹ کر اللہ کے پاس آئے گا اور وہ جہنمی ہے (اور تم پر کوئی گناہ نہیں)‘‘ (مسلم۔ کتاب الفتن۔ باب نزول الفتن کمواقع القطر) نیز کئی احادیث میں صراحت سے مذکور ہے کہ قیامت کے دن ظالم کی نیکیاں مظلوم کو دے دی جائیں گی اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوں گی تو مظلوم کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی۔