سورة النسآء - آیت 159

وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور یہ جتنے اہل کتاب ہیں عیسیٰ ابن مریم کی (طبعی) موت سے پہلے ضرور اس پر ایمان [٢٠٨] لائیں گے اور قیامت کے دن وہ ان کے خلاف گواہی دیں گے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٠٨] یعنی جب قیامت کے نزدیک عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اس دنیا پر نزول فرمائیں گے تو سارے اہل کتاب (یہود بھی عیسائی بھی) سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی طبعی موت سے پیشتر ان پر ضرور ایمان لائیں گے۔ اس ضمن میں درج ذیل احادیث خاصی روشنی ڈالتی ہیں : ١۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ عنقریب تم میں ابن مریم عادل حکمران کی حیثیت سے نازل ہوں گے۔ وہ صلیب توڑ ڈالیں گے، جزیہ اٹھا دیں گے۔ اس زمانے میں مال کی اتنی کثرت ہوگی کہ اسے کوئی قبول نہ کرے گا اور ایک سجدہ ان کے نزدیک دنیا و مافیہا سے بہتر ہوگا۔ اگر چاہو تو پڑھ لو وان من اھل الکتٰب الا لیومنن بہ قبل موتہ ( بخاری، کتاب الانبیائ، باب نزول عیسیٰ بن مریم۔۔ مسلم، کتاب الایمان، باب نزول عیسیٰ بن مریم) ٢۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب عیسیٰ بن مریم تم میں نازل ہوں گے اور تمہارا امام تم ہی میں سے ہوگا۔ (یعنی وہ بھی شریعت محمدی کی پیروی کریں گے۔)‘‘ (بخاری، کتاب الانبیاء، باب نزول عیسیٰ بن مریم) ٣۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’میں رات کو اپنے تئیں خواب میں دیکھتا ہوں جیسے میں کعبہ کے پاس ہوں۔ میں نے دیکھا کہ ایک خوش شکل آدمی، گندمی رنگ، بال کندھوں تک اور سنہرے تھے اور سر سے پانی ٹپک رہا تھا۔ وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو دو آدمیوں کے کندھوں پر رکھے کعبہ کا طواف کر رہا ہے۔ میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا ’یہ مسیح ابن مریم ہیں۔‘ ان کے پیچھے میں نے ایک اور شخص کو دیکھا جس کے بال سخت گھونگریالے، رنگ کا سرخ اور داہنی آنکھ سے کانا اور اس کی آنکھ جیسے پھولا ہوا انگور ہو، جن لوگوں کو میں نے دیکھا ہے ان میں سے عبدالعزیٰ بن قطن کے بہت مشابہ جو دور جاہلیت میں مر گیا تھا اپنے دونوں ہاتھ ایک شخص کے کندھوں پر رکھے طواف کر رہا ہے۔ میں نے پوچھا 'یہ کون ہے؟' لوگوں نے کہا 'یہ مسیح دجال ہے۔' (حوالہ ایضاً) ٤۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ حق پر لڑتی رہے گی اور قیامت تک غالب رہے گی۔ پھر عیسیٰ بن مریم نازل ہوں گے تو اس جماعت کا امیر کہے گا آئیے! ہمیں نماز پڑھائیے۔‘‘ وہ کہیں گے ’’نہیں! اللہ کی طرف سے اس امت کو یہ شرف حاصل ہے کہ ان میں سے ہی کوئی دوسروں پر امیر ہو۔‘‘ (مسلم، کتاب الایمان۔ باب نزول عیسیٰ بن مریم) ٥۔ نزول مسیح اور فتنہ دجال :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’دجال اسی حال میں ہوگا کہ اللہ مسیح ابن مریم کو مبعوث فرمائے گا جو دمشق کے شرقی سفید مینار کے پاس اتریں گے اور زرد رنگ کا جوڑا پہنے اور اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے بازوؤں پر رکھے ہوں گے۔ جب اپنا سر جھکائیں گے تو قطرے ٹپکیں گے اور جب اٹھائیں گے تو بھی موتیوں کی طرح قطرے گریں گے۔ کافر ان کے سانس کی بو پاتے ہی مر جائے گا اور ان کا سانس حد نگاہ تک پہنچے گا۔ پھر وہ دجال کی تلاش کریں گے تو اسے باب لد پر پائیں گے۔ پھر اسے قتل کردیں گے۔‘‘ (مسلم، کتاب الفتن، باب ذکر الدجال ) ٦۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’دجال میری امت میں نکلے گا تو وہ چالیس۔۔ رہے گا مجھے نہیں معلوم کہ چالیس دن یا چالیس ماہ یا چالیس سال۔ (نواس بن سمعان کی روایت میں چالیس دن ہے) پھر اللہ تعالیٰ عیسیٰ بن مریم کو بھیجے گا۔ وہ ایسے ہوں گے جیسے عروہ بن مسعود ہے۔ عیسیٰ دجال کو تلاش کریں گے پھر اسے مار ڈالیں گے۔ پھر سات سال تک لوگ اس طرح رہیں گے کہ دو آدمیوں میں دشمنی نہ ہوگی۔‘‘ (مسلم، کتاب الفتن، باب ذکر الدجال) اہل کتاب کا سیدنا عیسیٰ پر ایمان لانا :۔ اہل کتاب میں سے عیسائی تو پہلے ہی رفع عیسیٰ علیہ السلام کے قائل ہیں البتہ یہودی بزعم خود ضرور یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو سولی پر چڑھا کر مار ڈالا تھا۔ قیامت کے قریب جب سیدنا عیسیٰ نزول فرمائیں گے تو ان کی شان و شوکت کو دیکھ کر یہود کو بھی اعتراف کرنا پڑے گا کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام واقعی اللہ کے رسول تھے اور انہوں نے ولدالحرام ہونے سے متعلق جو الزام لگایا تھا وہ سراسر غلط تھا۔ نیز ان کا یہ گمان باطل کہ انہوں نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو مار ڈالا ہے، بھی غلط ثابت ہوجائے گا۔ نزول عیسیٰ کے منکرین کی تاویل :۔ بعض منکرین معجزات یہ کہتے ہیں کہ ﴿وَاِنْ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ﴾ کی ضمیر اہل کتاب کی طرف لوٹتی ہے۔ اس لحاظ سے وہ اس کا مطلب یہ بتاتے ہیں کہ اہل کتاب اپنی موت کے وقت جبکہ غیب کے سب پردے ہٹ جاتے ہیں مرنے سے پیشتر ضرور عیسیٰ علیہ السلام کی رسالت اور نبوت پر ایمان لے آئیں گے۔ اس تاویل کے بعد وہ احادیث مندرجہ بالا کو ناقابل اعتماد قرار دے کر نزول مسیح سے انکار کردیتے ہیں۔ یہ تاویل اس لحاظ سے غلط ہے کہ موت کے وقت غیب کے پردے ہٹ جانے سے تو بے شمار حقائق منکشف ہوجاتے ہیں اور یہود کو یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ جن جن انبیاء کو یہود نے جھوٹا سمجھ کر قتل کردیا تھا وہ سب سچے تھے پھر اس میں سیدنا عیسیٰ کی کیا تخصیص رہ گئی اور ان کی کیا خصوصیت اور فوقیت ثابت ہوئی جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے؟ علاوہ ازیں ہمیں کوئی کمزور سے کمزور روایت بھی ایسی نہیں ملتی جو ان لوگوں کے اس نظریہ کی تائید کرتی ہو۔ جبکہ نزول عیسیٰ سے متعلق اس قدر احادیث کتب احادیث میں موجود ہیں جو حد تواتر کو پہنچتی ہیں۔