ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ
پھر اس دن ضرور تم سے نعمتوں کے بارے میں باز پرس [٦] ہوگی۔
[٦] انسان پر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں تو لاتعداد ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی فرمایا کہ ﴿وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْہَا﴾ (١٤: ٣٤، ١٦: ١٨) یعنی تم پر اللہ کی نعمتیں اتنی زیادہ ہیں کہ اگر تم انہیں شمار کرنا چاہو تو شمار بھی نہیں کرسکتے۔ تاہم ان نعمتوں کی دو بڑی قسمیں ہیں۔ ایک وہ جو خداداد ہیں مثلاً جوانی اور صحت جو اکیلے ہی ہزار نعمتوں سے بڑھ کر ہے۔ ایسی نعمتوں کے متعلق یہ سوال ہوگا کہ ان کو تم نے کس قسم کی کوششوں میں صرف کیا تھا۔ اور دوسری وہ نعمتیں ہیں جن میں انسان کے اپنے کسب کو بھی دخل ہے۔ جیسے مال و دولت اور ہر قسم کی جائیداد۔ ایسی نعمتوں کے متعلق دو طرح کے سوال ہونگے۔ ایک یہ کہ ان چیزوں کو کن اور کیسے ذرائع سے حاصل کیا اور دوسرا یہ کہ ان کو خرچ کون سے کاموں میں کیا۔ یعنی ان کا مصرف جائز تھا یا ناجائز؟ اس کی مزید تفصیل درج ذیل احادیث میں ملاحظہ فرمائیے : ١۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا : ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کون سی نعمت کا ہم سے سوال ہوگا (ہماری خوراک) یہی دو کالی چیزیں (کھجور اور پانی) ہے دشمن سر پر ہے اور تلواریں ہمارے کندھوں پر رہتی ہیں (پھر باز پرس کس چیز کی ہوگی؟) ‘‘ آپ نے فرمایا : ’’تاہم یہ ضرور ہوگا۔‘‘ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) ٢۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تروتازہ کھجوریں کھلائیں اور ٹھنڈا پانی پلایا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ : یہ ان نعمتوں میں سے ہیں جن کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ (مسلم۔ کتاب الاشربہ۔ باب جواز استتباعہ غیرہ)