حَتَّىٰ زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ
تاآنکہ تم قبروں کو جا ملتے ہو [٢]
[٢] انہیں چیزوں کے حصول میں انسان اپنی پوری زندگی کھپا دیتا ہے اور ان چیزوں سے اہم تر چیزوں سے اس کی توجہ ہٹی رہتی ہے اور وہ اہم تر چیزیں یہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی یاد، اخلاقی حدود و قیود کی پابندی، حقداروں کے حقوق کی ادائیگی اور اپنی عاقبت کی فکر۔ ایسی باتوں سے غافل رہ کر وہ مرغوبات نفس کے حصول میں ہی پڑا رہتا ہے تاآنکہ اسے موت آجاتی ہے۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ ایک دفعہ دو قبیلے اپنے اپنے جتھے کی کثرت تعداد پر فخر کر رہے تھے۔ جب گننے پر ایک قبیلہ کے آدمی دوسرے سے کم نکلے تو شکست خوردہ قبیلہ کہنے لگا کہ ہمارے اتنے آدمی فلاں لڑائی میں مارے جاچکے ہیں۔ بیشک چل کر قبریں شمار کرلو۔ وہاں پتہ لگے گا کہ ہماری جمعیت تم سے کتنی زیادہ ہے اور ہم میں کیسے کیسے نامور گزر چکے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ قبریں شمار کرنے لگے۔ ان کی اس جہالت پر متنبہ کرنے کے لیے یہ سورت نازل ہوئی۔ اس روایت کی صحت کے متعلق تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے تاہم یہ ایک پہلو سے اس مضمون کی خوب وضاحت کرتی ہے۔ البتہ اس سلسلہ میں درج ذیل حدیث صحیح اور قابل احتجاج ہے : عبداللہ بن شخیر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور وہ یہ سورت پڑھ رہے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ابن آدم کہتا ہے کہ یہ میرا مال ہے۔ یہ میرا مال ہے۔ حالانکہ تیرا مال صرف وہی ہے جو تو نے صدقہ کردیا اور جاری کیا، یا کھالیا اور فنا کردیا یا پہن لیا اور پرانا کردیا۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر)