كَلَّا لَا تُطِعْهُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِب ۩
ہرگز ایسا نہیں چاہیے۔ آپ اس کی بات نہ مانئے اور سجدہ کرکے (اپنے پروردگار کا) قرب [١٣] حاصل کیجئے
[١٣] سجدہ کی فضیلت :۔ یعنی اس بدکردار شخص کی بات مان کر کعبہ میں نماز کی ادائیگی سے رکنے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ اسی طرح نماز ادا کرتے رہو۔ جیسے پہلے ادا کرتے رہے ہو۔ واضح رہے کہ یہاں سجدہ سے مراد صرف سجدہ نہیں بلکہ نماز ہے اور عربوں کا قاعدہ ہے کہ وہ کسی چیز کا جزء اشرف بول کر اس سے کل یا اصل چیز مراد لیتے ہیں اور بتایا یہ جارہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس قدر نمازیں ادا کریں گے اتنا ہی زیادہ اللہ کا قرب حاصل ہوگا۔ لہٰذا نمازیں بکثرت ادا کیا کیجیے۔ سجدہ کی فضیلت سے متعلق درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ ربیعہ بن کعب اسلمی فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسل کے ہاں ہی رات کو رہا کرتا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاجت اور وضو کے لیے پانی لایا کرتا۔ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مانگ کیا مانگتا ہے۔ میں نے عرض کیا ’’جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفاقت چاہتا ہوں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا :’’کچھ اور بھی؟‘‘ میں نے عرض کیا : ’’بس یہی کچھ چاہتا ہوں‘‘ آپ نے فرمایا :’’اچھا تو کثرت سجود کو اپنے اوپر لازم کرلو اور اس طرح اس سلسلہ میں میری مدد کرو‘‘ (مسلم۔ کتاب الصلوٰۃ باب فضل السجود والحث علیہ) ٢۔ اس سورۃ کے اختتام پر بھی سجدہ تلاوت کرنا چاہیے۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سورت ﴿ اِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ ﴾اور سورۃ اقراء میں سجدہ کیا۔