أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَىٰ
کیا اس نے آپ کو یتیم نہ پایا [٥] پھر ٹھکانا فراہم کیا
[٥] یتیم ہونے پر آپ کو بہترین سرپرست ملتے رہے :۔ آپ کی پیدائش سے دو ماہ پیشتر ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد ماجد کا انتقال ہوگیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا ہوئے تو آپ کی سرپرستی کا ذمہ آپ کے دادا عبدالمطلب نے لیا جو اپنی صلبی اولاد سے بڑھ کر آپ پر شفقت اور پیار کرتے تھے۔ ابھی چھ ہی سال کے تھے کہ والدہ ماجدہ بھی انتقال کرگئیں اور آپ دونوں طرف سے یتیم ہوگئے۔ آٹھ سال کے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مہربان دادا عبدالمطلب کی بھی وفات ہوگئی۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سرپرستی کی ذمہ داری آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک چھوٹے چچا ابو طالب نے سنبھالی۔ جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی اولاد سے بڑھ کر پیار دیا۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت ملی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برادری کے لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن ہوگئے تو ابو طالب نے اسلام نہ لانے کے باوجود ہر تنگی ترشی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ دیا۔ برادری کی دشمنی اور عداوت کا سارا بار اپنے سر مول لیا اور ہر طرح کے خطرات سے بے نیاز ہو کر نبوت کے آغاز سے دس سال بعد تک آپ کی سرپرستی اور حفاظت کی ذمہ داری کو بڑے احسن طریقے سے نباہا۔ حتیٰ کہ شعب ابی طالب کے تین سال بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ محصور رہے۔ ١٠ نبوی میں یہ سہارا بھی ختم ہوگیا یعنی ابو طالب کی وفات ہوگئی۔ اس کے تھوڑی ہی مدت بعد اللہ تعالیٰ نے انصار مدینہ (اوس اور خزرج) کو اسلام کی نعمت عطا فرمائی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیعت عقبہ کے بعد مدینہ تشریف لے گئے۔ انصار مدینہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کا جو ذمہ لیا تھا اسے جس جراتمندانہ طریق سے انہوں نے پورا کیا وہ تاریخ کے اوراق پر ثبت ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ احسان بتایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یتیم ہونے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سرپرست ایسے عطا کیے جاتے رہے جو اپنی جان سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عزیز رکھتے تھے۔