مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىٰ
کہ آپ کے پروردگار نے نہ تو آپ کو چھوڑا ہے اور نہ ناراض [٢] ہوا ہے
[٢] اس سورت کے نزول کا پس منظر یہ ہے کہ پہلی وحی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر غار حرا میں نازل ہوئی جو سورۃ العلق کی ابتدائی پانچ آیات تھیں۔ اس بار وحی کی کوفت کا تو یہ حال تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گھر آکرسیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو یہ واقعہ سنایا تو بتایا کہ''انی خشیت علٰی نفسی'' کہ مجھے تو اپنی جان کے لالے پڑگئے تھے اور لذت و سرور کا یہ حال تھا کہ آپ اس واقعہ کے بعد ہر وقت جبرائیل کی آمد کے منتظر رہتے تھے لیکن وحی کچھ عرصہ کے لیے بند ہوگئی یہ عرصہ کتنا تھا ؟ اس کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔ کم سے کم تین دن اور زیادہ سے زیادہ چھ ماہ۔ واللہ اعلم بالصواب۔ اسی وقفہ کو فترۃ الوحی کہتے ہیں۔ اس دوران آپ کو خود بھی بعض دفعہ یہ خیال آنے لگتا کہ کہیں میرا پروردگار مجھ سے ناراض تو نہیں ہوگیا ؟ اور کافر تو بہرحال ایسے موقع کی تلاش میں رہتے تھے جس سے وہ اپنے اندر کا ابال نکال سکیں جیسا کہ درج ذیل حدیث سے ظاہر ہے : جندب بن سفیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مزاج ناساز ہوا اور دو تین راتیں (نماز تہجد کے لیے) اٹھ نہ سکے۔ ایک عورت (عوراء بنت حرب، ابو سفیان کی بہن اور ابو لہب کی بیوی) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی : محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سمجھتی ہوں کہ ’’تیرے شیطان نے تجھے چھوڑ دیا ہے میں نے دو تین راتوں سے اسے تیرے پاس نہیں دیکھا‘‘ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)