وَأَنتَ حِلٌّ بِهَٰذَا الْبَلَدِ
اور آپ اس شہر کو حلال [٢] بنانے والے ہیں
[٢] حل کا لغوی مفہوم :۔ حِلَّ: حَلَّ کا بنیادی معنی ''گرہ کھولنا'' اور اس کی ضد عَقَدَ یعنی گرہ لگانا ہے۔ ارباب حل و عقد، ارباب بست و کشاد مشہور الفاظ ہیں۔ اور سامان باندھنے اور کھولنے کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ مسافر سامان باندھ کر سفر پر جاتا ہے اور جہاں فروکش ہوتا ہے تو سامان کھول دیتا ہے۔ لہٰذا حل کا لفظ کسی جگہ اترنے، فروکش ہونے اور قیام پذیر ہونے کے لیے بھی استعمال ہونے لگا۔ علاوہ ازیں حلال کا لفظ حرام کے مقابلہ میں بھی آجاتا ہے۔ حرام ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے سختی سے منع کیا جائے یعنی اس پر گرہ لگا دی جائے اور حلال اس گرہ کے کھولنے کو کہتے ہیں۔ اور حِلٌّ، حَلَّ سے اسم فاعل ہے۔ اسی وجہ سے حل کے یہاں کئی معنی کیے جاتے ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ مکہ وہ شہر ہے جہاں آپ کسی وقت فاتحانہ حیثیت سے فروکش ہوں گے۔ دوسرا یہ کہ اس شہر میں مسلمانوں پر اور آپ پر ہر طرح کے ظلم و ستم کو حلال سمجھ لیا گیا ہے۔ اور تیسرا یہ کہ ایک وقت آنے والا ہے جبکہ آپ اس شہر میں فاتحانہ حیثیت میں داخل ہو کر اس کی سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے لے کر آج تک قائم شدہ حرمت کو توڑ دیں گے اور حلال بنا دیں گے گو یہ کام صرف ایک ساعت کے لیے ہی ہوگا۔ ہمارے خیال میں یہی تیسرا مفہوم راجح ہے کیونکہ درج ذیل احادیث اسی مفہوم کی تائید کرتی ہیں : مکہ کی حرمت :۔ ١۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال قبیلہ خزاعہ نے قبیلہ بنو لیث کا ایک آدمی مار ڈالا۔ کیونکہ بنولیث نے خزاعہ کا ایک آدمی پہلے مارا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر ہوئی تو آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور خطبہ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اصحاب الفیل کو روک کر مکہ سے قتل کو روک دیا۔ اور اب اللہ، اس کا رسول اور مسلمان (مکہ کے کافروں پر) غالب ہیں۔ سن رکھو! مکہ نہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال ہوا ہے نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہوگا اور میرے لیے بھی دن کی ایک ساعت کے لیے حلال ہوا۔ سن رکھو! مکہ اس وقت بھی حرام ہے یہاں کے نہ کانٹے توڑے جائیں، نہ درخت کاٹے جائیں' نہ یہاں سے کوئی گری پڑی چیز اٹھائی جائے۔ الا یہ کہ اٹھانے والا اسے مالک تک پہنچا دینے کا ارادہ رکھتا ہو۔ اگر یہاں کوئی مارا جائے تو اس کے وارث کو دو میں سے ایک بات کا اختیار ہے۔ یا تو دیت لے لے اور یا قصاص (قاتل اس کے حوالہ کردیا جائے) اتنے میں اہل یمن کے ایک شخص (ابوشاہ) نے آکر عرض کی ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو باتیں فرمائی ہیں۔ مجھے لکھ دیجیے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ سے کہا : ’’اسے لکھ دو‘‘ پھر ایک قریشی (سیدنا عباس رضی اللہ عنہ ) نے عرض کی : ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اذخر (گھاس کاٹنے) کی اجازت دے دیجیے۔ ہم اسے اپنے گھروں اور اپنی قبروں میں بچھاتے ہیں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’اچھا اذخر (کاٹنے) کی اجازت ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب العلم۔ باب کتابۃ العلم) ٢۔ ابو شریح نے عمرو بن سعید (جو یزید کی طرف سے حاکم مدینہ تھا) سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ سے دوسرے دن خطبہ ارشاد فرمایا۔ پہلے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا : اللہ نے مکہ کو حرام کیا ہے لوگوں نے نہیں کیا تو جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے یہاں نہ خون بہانا درست ہے اور نہ کوئی درخت کاٹنا اور اگر کوئی شخص یہ دلیل لے کہ اللہ کے رسول یہاں لڑے تو تم اسے کہو : اللہ تعالیٰ نے تو اپنے رسول کو (فتح مکہ کے دن) خاص اجازت دی تھی جو تمہیں نہیں دی۔ اور مجھے بھی صرف دن کی ایک گھڑی اجازت دی گئی۔ اس کے بعد اس کی وہی حرمت ہے جو کل تھی۔ اور جو شخص یہاں موجود ہے وہ اس کو یہ باتیں بتا دے جو یہاں موجود نہیں'' لوگوں نے ابو شریح سے پوچھا : ''تو پھر عمرو بن سعید نے اس کا کیا جواب دیا ؟ ابو شریح کہنے لگے : عمرو نے یہ جواب دیا کہ : میں تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ مکہ گنہگار کو پناہ نہیں دیتا اور نہ اس کو جو خون یا چوری کرکے بھاگے۔ (بخاری، کتاب العلم۔ باب لیبلغ العلم الشاہد الغائب) اس آیت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تسلی بھی دی گئی ہے اور ایک بہت بڑی پیشین گوئی بھی ہے جو اس وقت کی گئی جب مسلمان کافروں کے ظلم و جور کی چکی میں پس رہے تھے اور اس وقت کسی کے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات نہ آسکتی تھی۔ مگر اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ یہ پیشین گوئی ٨ ھ میں سو فیصد پوری ہوئی۔