الَّذِي خَلَقَ فَسَوَّىٰ
جس نے پیدا کیا پھر اسے درست [٢] کیا
[٢] یعنی اللہ تعالیٰ نے کائنات کی سب اشیاء کو پیدا ہی نہیں کیا بلکہ اس چیز سے جو کام لینا مقصود تھا اس کے مطابق اس کی شکل و صورت بنائی اور شکل وصورت کو اس طرح ٹھیک ٹھاک اور درست کیا کہ اس کے لیے اس سے بہتر شکل و صورت ممکن ہی نہ تھی۔ مثلاً ناک کا ایک کام یہ ہے کہ اس سے دماغ کے فضلات خارج ہوتے رہیں اور یہ مقصد ناک کو سر کے پیچھے بنانے سے بھی حاصل ہوسکتا تھا۔ مگر اس کے تصور سے ہی انسان کو گھن آنے لگتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ناک کو چہرہ پر سامنے بنایا تاکہ چہرے کی خوبصورتی میں اضافہ ہو، نیز انسان کی ناک بہتی ہی نہ رہے بلکہ انسان بوقت ضرورت اپنے ہاتھ سے جھاڑ سکے اور صاف کرسکے۔ یہی صورت حال ایک ایک عضو بلکہ کائنات کی ایک ایک چیز کے متعلق مشاہدہ کی جاسکتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف خالق ہی نہیں بلکہ انتہا درجہ کا حکیم اور مدبر بھی ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اعضاء کی تخلیق محض اتفاقات کا نتیجہ قطعاً نہیں ہے ورنہ مقاصد کے ساتھ ساتھ حسن و جمال کے امتزاج کا تصور بھی نہیں ہوسکتا تھا۔