سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى
اپنے پروردگار کے نام کی تسبیح [١] کیجیے جو سب سے برتر ہے
[١] سبحان کا لغوی مفہوم : سَبَّحَ: ابن الفارس کے نزدیک لفظ سَبَّحَ کے بنیادی معنی دوہیں (١) عبادت کی قسم، اور (٢) دوڑنے کی قسم، اور امام راغب کے نزیک سبح کا معنی کسی چیز کا پانی، ہوا میں تیرنا یا تیزی سے گزر جانا اور سَبَّاح یعنی تیراک ہے اور سبحان سبح سے مصدر ہے جیسے غفر سے غُفْرَان۔ فضا میں لاکھوں کروڑوں سیارے نہایت تیزی سے گردش کر رہے ہیں جن میں نہ کبھی لرزش پیدا ہوتی ہے نہ جھول اور نہ تصادم یا ٹکراؤ۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ ان پر کنٹرول کرنے والی ہستی اپنی تقدیر و تدبیر اور انتظام میں نہایت محکم اور ہر قسم کی بے تدبیری، عیب یا نقص سے پاک ہستی ہی ہوسکتی ہے۔ پھر یہ بھی ضروری ہے کہ ایسی مدبر ہستی جو اپنی تدبیر محکم سے کائنات کا انتظام چلا رہی ہے وہ اس انتظام و انصرام میں بلاشرکت غیرے مختار کل ہو۔ کیونکہ کسی بھی دوسرے کا عمل دخل اس کائنات کے انتظام میں خلل انداز ہو کر اس میں گڑ بڑ پیدا کرسکتا ہے لہٰذا سُبْحَانَ سے مراد وہ ہستی ہوسکتی ہے جو ١۔ ہر طرح کے عیب و نقص سے پاک ہو۔ ٢۔ وہ بلاشرکت غیرے مختار کل بھی ہو اور ٣۔ کائنات کی تمام اشیاء پر پورا پورا کنٹرول بھی رکھتی ہو۔ اور تسبیح کرنے سے مراد ایسی ہستی کو ان صفات کے ساتھ یاد کرنا اور یاد رکھنا ہے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو نماز کا حصہ بنادیا اور فرمایا کہ اجعلوھا فی سجودکم (یعنی اس کو اپنے سجدوں میں رکھو) پھر ہدایت فرمائی کہ سجدہ کی حالت میں سبحان ربی الاعلیٰ کہا کرو۔ عقبہ بن عامر جہنی کہتے ہیں کہ آپ نے اس آیت کے مطابق سجدے میں (سبحان ربی الاعلی) اور سورۃ واقعہ کی آخری آیت فَسَبِّحْ باسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ کے مطابق رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم پڑھنے کا حکم دیا۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ، مسند احمد وغیرہ)