فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلَاةَ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِكُمْ ۚ فَإِذَا اطْمَأْنَنتُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ۚ إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا
پھر جب تم نماز ادا کر چکو تو کھڑے، بیٹھے اور لیٹے ہر حال میں اللہ کو یاد کرو اور جب اطمینان حاصل ہوجائے تو پھر پوری نماز ادا کرو۔ بلاشبہ مومنوں پر نماز اس کے مقررہ اوقات [١٤١] کے ساتھ فرض کی گئی ہے
[١٤١] نمازوں کے اوقات جنگ میں نماز اسی وقت ہی ادا کی جا سکتی ہے جب موقع ملے، اس دوران بھی اللہ کو ہر وقت یاد رکھنا چاہیے پھر جب حالات معمول پر آ جائیں تو نماز بھی معمول کے مطابق پڑھی جائے اور نمازوں کے اوقات کا بھی خیال رکھا جائے۔ احادیث کی رو سے نمازوں کے اوقات درج ذیل ہیں : ١۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ظہر کا وقت سورج ڈھلنے سے لے کر آدمی کا سایہ اس کے برابر ہونے تک ہے۔ اور عصر کا وقت (سایہ برابر ہونے سے لے کر) دھوپ میں زردی آنے تک ہے۔ اور نماز مغرب کا وقت (سورج غروب ہونے سے لے کر) شفق غائب ہونے تک ہے اور عشاء کا وقت (شفق غائب ہونے سے لے کر ٹھیک آدھی رات تک ہے اور صبح کا وقت طلوع فجر سے لے کر طلوع آفتاب تک ہے‘‘ (مسلم، کتاب المساجد و مواضع الصلٰوۃ باب اوقات الصلٰوۃ الخمس) ٢۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ دونوں فرماتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’گرمی کے موسم میں ظہر کی نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھا کرو اس لیے کہ گرمی کی سختی دوزخ کی بھاپ سے ہوتی ہے‘‘ (بخاری، کتاب، مواقیت الصلٰوۃ، باب الابراد بالظھر فی شدۃ الحر۔۔ مسلم، کتاب المساجد و مواضع الصلوۃ باب استحباب الابراد بالظھر فی شدۃ الحرم ) ٣۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم عورتیں چادروں میں لپٹی ہوئی جب نماز صبح سے فارغ ہو کر مسجد سے نکلتیں تو اندھیرے کی وجہ سے کوئی ان کو پہچان نہ سکتا تھا۔ (بخاری، کتاب مواقیت الصلٰوۃ، باب وقت الفجر) ٤۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشا کی نماز اس وقت پڑھائی جب رات کا کافی حصہ گزر چکا تھا۔ پھر فرمایا ’’اگر میری امت پر یہ بات شاق نہ ہوتی تو عشاء کی نماز کا اصل وقت یہی وقت ہے‘‘ (بخاری، کتاب مواقیت الصلٰوۃ، باب النوم قبل العشاء لمن غلب ) ٥۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز اس وقت پڑھاتے جب ہم میں سے کوئی شخص (فراغت کے بعد) اپنے ساتھ والے کو پہچان لیتا اور آپ اس نماز میں ساٹھ سے لے کر سو تک آیتیں پڑھتے۔ اور ظہر اس وقت پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا۔ اور عصر اس وقت کہ کوئی شخص عصر پڑھ کر شہر کے پرلے حصہ (تقریباً چار میل) تک اپنے گھر جاتا تو سورج ابھی تیز ہوتا اور شام سورج غروب ہونے پر اور عشاء کی نماز میں تہائی رات تک دیر کرنے کی پروا نہیں کرتے تھے۔‘‘ (بخاری، کتاب مواقیت الصلٰوۃ، باب وقت الظہر عند الزوال) ٦۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب کوئی شخص سورج ڈوبنے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پا لے وہ اپنی نماز پوری کرے (اس کی نماز ادا ہوئی یا قضا) اور جو سورج نکلنے سے پہلے فجر کی ایک رکعت پا لے وہ بھی اپنی نماز پوری کرے۔‘‘ (بخاری، کتاب مواقیت الصلٰوۃ، باب من ادرک رکعۃ من العصر قبل الغروب) ٧۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز کے بعد سورج چڑھنے تک نماز پڑھنے سے منع کیا۔ اور عصر کی نماز کے بعد سورج ڈوبنے تک۔ (بخاری، کتاب مواقیت الصلٰوۃ باب الصلٰوۃ بعد الفجر حتی ترتفع الشمس) ٨۔ عبداللہ بن ابی قتادہ رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم (خیبر سے واپسی پر) رات کو آپ کے ہمراہ سفر کر رہے تھے۔ بعض لوگوں نے کہا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا اچھا ہو جو یہاں اتر پڑیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مجھے خطرہ ہے کہ تم سو جاؤ گے اور نماز فجر کے لیے نہ اٹھو گے۔‘‘ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے کہا 'میں جگا دوں گا۔' چنانچہ سب لوگ سو گئے۔ اور بلال رضی اللہ عنہ نے اپنی اونٹنی سے پیٹھ لگائی تو نیند نے غلبہ کیا اور وہ بھی سو گئے پھر آپ اس وقت اٹھے جب سورج کا کنارہ نکل آیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا 'تمہارا قول کہاں گیا ؟' بلال رضی اللہ عنہ کہنے لگے 'مجھے تو ایسی نیند آئی جیسے پہلے کبھی نہ آئی تھی۔' آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ نے جب چاہا تمہاری روحیں قبض کرلیں اور جب چاہا تمہیں واپس دے دیں۔ اے بلال اٹھ اور نماز کے لیے اذان دے‘‘ چنانچہ بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور جب سورج ذرا بلند اور سفید ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی۔ (بخاری، کتاب مواقیت الصلٰوۃ۔ باب الاذان بعد ذھاب الوقت ) ٩۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص نماز ادا کرنا بھول جائے یا اس وقت سویا ہوا ہو تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ یاد آتے ہی ادا کرلے۔‘‘ (بخاری، کتاب مواقیت الصلٰوۃ، باب من نسی صلٰوۃ فلیصل اذا ذکرھا۔۔ مسلم، کتاب المساجد و مواضع الصلٰوۃ، باب قضاء الصلٰوۃ الفائتۃ۔۔ الخ) ١٠۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’منافق کی نماز یہ ہے کہ وہ سورج کو دیکھتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان آ جاتا ہے تو اٹھتا ہے اور چار ٹھونگیں مار لیتا ہے اور اللہ کا ذکر تھوڑا بہت ہی کرتا ہے۔‘‘ (مسلم، کتاب الصلٰوۃ، باب استحباب التبکیر بالعصر) ١١۔ سیدنا ام فروہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا عمل افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’نماز اول وقت پر ادا کرنا۔‘‘ (ترمذی، ابو اب الصلٰوۃ، باب ماجاء فی الوقت الاول من الفضل ) ١٢۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ کی خوشنودی نماز کو اول وقت ادا کرنے میں ہے اور آخر وقت میں ادا کرنا اللہ کی طرف سے معافی ہے۔‘‘ (ترمذی، حوالہ ایضاً) ١٣۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی بھی نماز آخر وقت میں نہ پڑھی مگر صرف دو بار۔ یہاں تک کہ وفات پائی۔ (ترمذی، حوالہ ایضاً) ١٤۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا ’’علی! تین باتوں میں تاخیر نہ کرنا (١) نماز میں جب اس کا وقت آ جائے (٢) جنازہ کی تدفین میں جب تو وہاں موجود ہو (٣) اور رنڈوے مرد یا رنڈوی عورت کے نکاح میں جب کہ اس کا بر (کفو) مل رہا ہو۔ ‘‘ (ترمذی، حوالہ ایضاً)