سورة النسآء - آیت 102

وَإِذَا كُنتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلَاةَ فَلْتَقُمْ طَائِفَةٌ مِّنْهُم مَّعَكَ وَلْيَأْخُذُوا أَسْلِحَتَهُمْ فَإِذَا سَجَدُوا فَلْيَكُونُوا مِن وَرَائِكُمْ وَلْتَأْتِ طَائِفَةٌ أُخْرَىٰ لَمْ يُصَلُّوا فَلْيُصَلُّوا مَعَكَ وَلْيَأْخُذُوا حِذْرَهُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْ ۗ وَدَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ تَغْفُلُونَ عَنْ أَسْلِحَتِكُمْ وَأَمْتِعَتِكُمْ فَيَمِيلُونَ عَلَيْكُم مَّيْلَةً وَاحِدَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن كَانَ بِكُمْ أَذًى مِّن مَّطَرٍ أَوْ كُنتُم مَّرْضَىٰ أَن تَضَعُوا أَسْلِحَتَكُمْ ۖ وَخُذُوا حِذْرَكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور جب آپ مسلمانوں کے درمیان موجود ہوں اور آپ (حالت جنگ میں) انہیں نماز پڑھانے کھڑے ہوں تو ایک گروہ تمہارے ساتھ نماز کے لیے کھڑا [١٣٩] ہو اور آپ نے ہتھیار پاس رکھیں۔ جب یہ گروہ سجدہ کرچکے تو پیچھے ہٹ جائے اور دوسرا گروہ جس نے ابھی نماز ادا نہیں کی، آگے آئے اور آپ کے ساتھ نماز ادا کرے۔ انہیں بھی چاہئے کہ وہ اپنا بچاؤ کا سامان اور ہتھیار اپنے ساتھ رکھیں۔ کافر تو چاہتے ہی یہ ہیں کہ تم اپنے ہتھیاروں اور سامان سے غافل ہوجاؤ تاکہ وہ تم پر یکبارگی پل پڑیں۔ ہاں اگر بارش کی وجہ سے یا بیماری کی وجہ سے ہتھیار پہننے میں تکلیف محسوس رو تو انہیں اتار دینے میں کوئی حرج نہیں، پھر بھی [١٤٠] آپ نے بچاؤ کا پورا خیال رکھو۔ اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لیے یقیناً رسوا کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٣٩] اس آیت میں نماز خوف کا طریقہ بیان کیا گیا ہے۔ نماز خوف کی کئی صورتیں ممکن ہیں۔ اور احادیث میں ایسی چھ سات صورتیں مذکور بھی ہیں۔ وہ صورتیں اس طرح بنتی ہیں کہ مقتدی جس نے ایک رکعت امام کے ساتھ ادا کی ہے تو آیا وہ دوسری رکعت خود موقع ملنے پر ادا کرے گا یا نہیں؟ یا اگر کرے گا تو کیسے کرے گا اور نماز مغرب جس کی قصر بھی تین رکعت ہے اس کی صورت کیا ہوگی؟ اور غالباً یہ طریقہ صرف اس ہنگامی حالت کے لیے ہے جبکہ معرکہ کار زار گرم نہ ہوا ہو۔ کیونکہ معرکہ گرم ہونے کی صورت میں تو جماعت کا موقع ہی نہیں آتا۔ جیسا کہ جنگ خندق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سمیت اکثر مسلمانوں کی نماز عصر قضا ہوگئی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور مجاہدین نے سورج غروب ہونے کے بعد قضا کے طور پر ادا کی۔ پھر اس کے بعد نماز مغرب ادا کی۔ (بخاری، کتاب مواقیت الصلٰوۃ۔ باب من صلی بالناس جماعۃً بعد ذھاب الوقت) دراصل نماز خوف کے طریق کار کا انحصار بہت حد تک جنگی حالات پر ہے۔ اگر جماعت کا موقع ہی میسر نہ آئے تو انسان اکیلا بھی پڑھ سکتا ہے۔ سواری پر بھی پڑھ سکتا ہے اور اشارے سے بھی پڑھ سکتا ہے۔ بس دو باتوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ ایک یہ کہ موجودہ جنگی حالات میں کونسا طریقہ بہتر ہے پھر اسے اختیار کیا جائے اور دوسرے یہ کہ ایسے حالات میں اللہ کی یاد کو بھلانا نہیں چاہیے۔ اب اس ضمن میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ’’اللہ نے تمہارے نبی کی زبان سے حضر میں چار، سفر میں دو اور خوف میں ایک رکعت نماز فرض کی ہے۔‘‘ (مسلم، کتاب الصلوۃ، باب صلٰوۃ المسافرین وقصرھا) ٢۔ نماز خوف کی مختلف صورتیں :۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم نے ضجنان اور عسفان کے درمیان پڑاؤ کیا۔ مشرکوں نے کہا : ان مسلمانوں کی ایک نماز ہے جسے وہ اپنے باپ اور بیٹوں سے زیادہ محبوب رکھتے ہیں اور وہ عصر کی نماز ہے لہٰذا تم اپنے اسباب جمع کرو اور اس وقت یکبارگی ان پر حملہ کر دو۔ اتنے میں جبریل علیہ السلام نازل ہوئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کے دو حصے کریں۔ ایک حصے کو نماز پڑھائیں اور دوسرا حصہ دشمن کے مقابل ان کے پیچھے کھڑا رہے اور اپنی ڈھالیں اور اپنے ہتھیار پہنے رہیں۔ پھر دوسرا حصہ آئے اور آپ کے ساتھ نماز پڑھے اور پہلے حصے والے اپنی ڈھالیں اور ہتھیار پہن لیں۔ اس طرح ہر گروہ کی ایک ایک رکعت، اور نبی اکرم کی دو رکعتیں ہوں گی۔ (ترمذی، ابو اب التفسیر) ٣۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے جب کوئی پوچھتا کہ ہم نماز خوف کیسے پڑھیں؟ تو وہ کہتے کہ امام آگے بڑھے کچھ لوگ اس کے ساتھ نماز ادا کریں۔ امام انہیں ایک رکعت پڑھائے۔ باقی لوگ ان کے اور دشمنوں کے درمیان کھڑے رہیں۔ نماز نہ پڑھیں۔ جب یہ لوگ امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھ چکیں تو سرک کر پیچھے چلے جائیں اور جنہوں نے نماز نہیں پڑھی اب وہ لوگ آ جائیں اور امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھیں۔ امام تو اپنی نماز (دو رکعت) سے فارغ ہوگیا۔ اب یہ دونوں گروہ باری باری ایک ایک رکعت پوری کرلیں تو ان کی بھی دو دو رکعت ہوجائیں گی اور اگر خوف اس سے زیادہ ہو تو پاؤں پر کھڑے کھڑے، پیدل یا سواری پر رہ کر نماز ادا کرلیں۔ منہ قبلہ رخ ہو یا نہ ہو۔ امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ نافع نے کہا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے۔ (بخاری، کتاب التفسیر) [١٤٠] آیت مذکورہ میں صرف دو صورتوں میں ہتھیار اتارنے کی اجازت ہے۔ پہلی یہ کہ بارش ہو رہی ہو کپڑے اور ہتھیار بھیگ رہے ہوں۔ دوسری یہ کہ کوئی شخص بیماری کی وجہ سے ہتھیار بند رہنے کا متحمل نہ ہو۔ ان صورتوں کے علاوہ ہتھیار اتارنے کی اجازت نہیں۔ اس لیے آخر میں تاکیدی طور پر دوبارہ سہ بارہ اس حکم کو دہرایا۔ ﴿خُذُوْا حِذْرَکُمْ ﴾کے الفاظ بڑے وسیع مفہوم میں استعمال ہوتے ہیں، اس کے معنی ہوشیار اور چوکنا رہنا مسلح رہنا اور اپنے بچاؤ کے تمام ذرائع اختیار کیے رکھنا ہے۔ مثلاً مورچوں کی حفاظت کرنا اور ان میں پناہ پکڑنا، لڑائی سے پہلے سامان جنگ تیار رکھنا۔ دشمن کی نقل و حرکت سے باخبر رہنا، اس کا مداوا سوچنا بے خبری میں دشمن کے حملے کے لیے تیار رہنا سب کچھ ﴿خُذُوْا حِذْرَکُمْ﴾ کے مفہوم میں سما جاتا ہے۔ دور نبوی میں اسلحہ جنگ ہر مجاہد کی انفرادی ملکیت ہوتا تھا مگر آج اسلحہ جنگ مہیا کرنا حکومتوں کی ذمہ داری ہے لہٰذا اسلحہ جنگ کے تیار کرنے والے کارخانوں، اسلحہ کے ذخائر اور دشمن سے ان کا بچاؤ بھی﴿خُذٌوْا حِذْرَکُمْ﴾ میں شامل ہے۔ غرض قوم و ملک کا تحفظ، افراد فوج کے تحفظ کی تدابیر، آلات جنگ کا تحفظ، لڑائی کے منصوبوں کو صیغہ راز میں رکھنا سب کچھ اس حکم میں داخل ہے۔ آج دشمن سب سے پہلے اسلحہ کے محفوظ ذخائر کو یا اسلحہ ساز فیکٹریوں کو اچانک حملے کے ذریعے تباہ کردیتا ہے۔ ان سب امور کی طرف مسلمانوں کو اس آیت میں متوجہ کیا گیا ہے۔