سورة النسآء - آیت 95

لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ۚ فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

جو لوگ بغیر کسی معذوری [١٣٢] کے بیٹھ رہیں (جہاد میں شامل نہ ہوں) اور جو لوگ اپنی جانوں اور اپنے اموال سے اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں ان دونوں کی حیثیت برابر نہیں ہوسکتی۔ اللہ نے آپ نے جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا بیٹھ رہنے والوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ درجہ رکھا ہے۔ اگرچہ ہر ایک [١٣٣] سے اللہ نے بھلائی کا وعدہ کر رکھا ہے تاہم بیٹھ رہنے والوں کے مقابلہ میں جہاد کرنے والوں کا اللہ کے ہاں بہت زیادہ جر ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٣٢] اس آیت کے شان نزول کے بارے میں درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے : براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت ﴿ لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾اتری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو بلایا انہوں نے یہ آیت لکھی۔ اتنے میں ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ آئے اور شکوہ کیا کہ میں تو اندھا ہوں (میرا کیا قصور؟) اس وقت اللہ تعالیٰ نے غیر اولی الضرر کے الفاظ نازل فرمائے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) گویا اللہ تعالیٰ نے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ بن ام مکتوم کے عذر کو قبول فرما لیا لیکن اس رخصت کے باوجود آپ کا جذبہ جہاد اتنا بلند تھا کہ نابینا ہونے کے باوجود آپ مشقت اٹھا کر بھی کئی غزوات میں شریک ہوئے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو مسلمان جنگ بدر میں شریک ہوئے اور جو نہیں ہوئے یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔ (حوالہ ایضاً) جہاد فرض عین نہیں :۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ جہاد فرض عین نہیں اور اس کے کئی پہلو ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ معاشرہ میں کئی افراد بوڑھے، ناتواں، کمزور، اندھے، لنگڑے، لولھے، بیمار وغیرہ ہوتے ہیں جو جہاد پر جا ہی نہیں سکتے۔ جیسا کہ حدیث بالا سے ظاہر ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ کچھ لوگ ملک کے اندرونی دفاع، مجاہدوں کے گھروں کی حفاظت، ان کے اہل و عیال کی دیکھ بھال کے لیے بھی ضرور پیچھے رہنے چاہئیں۔ اور اس لیے بھی کہ مجاہدین کو بروقت کمک مہیا کرتے رہیں، خواہ یہ رسد اور سامان خورد و نوش سے متعلق ہو یا افرادی قوت سے۔ پھر کچھ لوگ زخمیوں کی دیکھ بھال کے لیے بھی ضروری ہوتے ہیں اور ایسے سب لوگ بھی درجہ بدرجہ جہاد میں شامل سمجھے جاتے ہیں۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : جہاد سے معذور لوگ :۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ تبوک سے واپس ہوئے اور مدینہ کے قریب پہنچے تو فرمایا ’’مدینہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ جب تم کوئی سفر کرتے ہو یا کوئی وادی طے کرتے ہو تو وہ تمہارے ساتھ ہوتے ہیں‘‘ صحابہ کرام نے پوچھا ’’باوجود اس کے کہ وہ مدینہ میں ہوتے ہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ہاں! یہ وہ لوگ ہیں جنہیں کسی عذر نے روک لیا ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب المغازی۔ باب غزوہ تبوک۔۔ مسلم۔ کتاب الامارۃ، باب ثواب من حبسہ عن الغزو مرض او عذر آخر) اور جہاد کے فرض عین نہ ہونے پر یہ آیت بھی دلالت کرتی ہے ﴿ وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَاۗفَّۃً ﴾ (9: 122)(مومنوں کے لیے ممکن ہی نہیں کہ سب کے سب نکل کھڑے ہوں) اور آج کل تو حکومتوں نے محکمہ دفاع ہی الگ بنا رکھا ہے۔ البتہ اگر ایک اسلامی حکومت جہاد کا اعلان کر کے عام لوگوں کو جہاد کے لیے کہے تو اس صورت میں عام لوگوں پر بھی جہاد فرض ہوجائے گا لیکن پھر بھی یہ فرض کفایہ ہی ہوگا۔ فرض عین نہیں ہوگا۔ تاہم جہاد ایک اہم فرض کفایہ ہے جس سے غفلت کا نتیجہ قوم کی موت کی صورت میں نکلتا ہے اور یہ تاقیامت جاری رہے گا۔ مجاہدین کے درجے :۔ دوسری بات جو اس آیت سے معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرنے والوں کے ہی دوسروں کی بہ نسبت درجات بلند ہوتے ہیں اور وہی اجر عظیم کے مستحق ہوتے ہیں۔ کیونکہ جان اور مال سے ہی انسان کو سب سے زیادہ محبت ہوتی ہے پھر جس نے اللہ کی راہ میں ان دونوں چیزوں کی قربانی دے دی اس سے بڑھ کر کس کا درجہ ہوسکتا ہے۔ چنانچہ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا ’’لوگوں میں سب سے افضل کون ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو اللہ کی راہ میں اپنی جان اور مال سے جہاد کرے۔‘‘ (بخاری، کتاب الجہاد۔ باب افضل الناس مومن یجاہد بنفسہ ومالہ) اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جنت میں سو درجے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے مجاہدین فی سبیل اللہ کے لیے تیار کیا ہے اور ہر درجہ کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان کے درمیان ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب الجہاد، باب درجات المجاہدین فی سبیل اللہ ) صوفیاء کا جہاد اصغر اور جہاد اکبر کا نظریہ :۔ اس مقام پر ایک عوامی عقیدہ کا جائزہ لینا ضروری معلوم ہوتا ہے جس کا صوفیہ کے طبقہ نے ریاضت و مجاہدہ کی فضیلت ثابت کرنے کے لیے خوب خوب پرچار کیا ہے اور وہ عقیدہ یہ ہے کہ جہاد بالسیف جہاد اصغر ہے اور نفس سے جہاد کرنا جہاد اکبر ہے اور جہاد اصغر سے جہاد اکبر بہتر ہے۔ اس سلسلہ میں اس حدیث کا سہارا لیا جاتا ہے والْمُجَاھِدُ مَنْ جَاھَدَ نَفْسَہُ فِیْ طَاعَۃِ اللّٰہِ مجاہد وہ ہے جو اللہ کی اطاعت میں اپنے نفس سے جہاد کرے۔ اس حدیث میں فی طاعۃ اللہ کے الفاظ اس گمان باطل کو رد کرنے کے لیے کافی ہیں۔ کیونکہ ان کے ریاضت و مجاہدہ میں بے شمار ایسی چیزیں ہیں جو صریحاً کتاب و سنت کے خلاف ہیں مثلاً ترک نکاح، چلے کاٹنا اور اپنے جسم کی تعذیب اور اسے مختلف طریقوں سے مضمحل کر کے کمزور بنانا وغیرہ اور حقیقت یہ ہے کہ ان کے ایسے کام مجاہدہ نفس نہیں بلکہ نفس کشی ہوتی ہے اور فی طاعۃ اللہ کے بجائے فی معصیۃ اللہ ہوتی ہے اور اللہ کی اطاعت اور اسلامی نقطہ نگاہ سے ان چیزوں کا دور کا بھی تعلق نہیں۔ یہ حدیث بیہقی نے شعب الایمان میں فضالہ سے روایت کی ہے کہ جس کے پورے الفاظ یہ ہیں ’’اور مجاہد وہ ہے جس نے اللہ کی اطاعت میں اپنے نفس سے جہاد کیا اور مہاجر وہ ہے جس نے چھوٹے اور بڑے گناہوں کو چھوڑا۔‘‘ ظاہر ہے کہ اس حدیث میں جہاد اور ہجرت کے اس پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے جس طرف ذہن عموماً منتقل نہیں ہوتا۔ بتایا یہ گیا ہے کہ جہاد اور ہجرت کا ایک پہلو یہ بھی ہے۔ ورنہ جس طرح ہجرت وہی ہے جو مسلمانوں نے فتح مکہ سے پہلے کی ہے یا ایسے حالات میں مسلمان اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے کریں۔ اسی طرح جہاد حقیقتاً وہی ہے جسے جہاد بالسیف کہا جاتا ہے اور ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس آیت میں صوفیاء کے اس نظریہ کی پرزور تردید موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دوبارہ فرمایا کہ جو لوگ اپنی جانوں اور اپنے اموال سے اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں وہ بیٹھنے والوں سے افضل ہیں اور یہ تو ظاہر ہے کہ نفس سے خواہ کوئی کس انداز سے مجاہدہ کرے وہ بیٹھنے والوں میں ہی شامل رہے گا۔ مجاہدین فی سبیل اللہ میں شامل نہیں ہو سکتا۔ علاوہ ازیں ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہی بات صراحت سے ثابت ہوتی ہے کہ جہاد کو آپ نے افضل الاعمال قرار دیا ہے۔ صوفیاء نے اپنے اس نظریہ کو درست ثابت کرنے کے لیے ایک موضوع حدیث بھی گھڑ رکھی ہے جو یہ ہے کہ آپ نے ایک دفعہ جہاد سے واپسی پر فرمایا کہ رجعنا من الجھاد الا صغر الی الجھاد الاکبر ہم چھوٹے جہاد (یعنی جہاد بالسیف) سے بڑے جہاد (یعنی جہاد بالنفس) کی طرف لوٹ آئے ہیں۔ اس حدیث کے متعلق مولانا حسین احمد مدنی کہتے ہیں کہ صوفیاء اس کو حدیث کہتے ہیں لیکن امام عسقلانی کہتے ہیں کہ امام نسائی نے اسے ابراہیم بن عیلہ کا قول بتایا ہے۔ الفاظ کی رکاکت زبردست قرینہ ہے کہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول نہیں ہوسکتا اور نہ حدیث کی کتابوں میں شاہ عبدالعزیز جیسے معتبر محدث نے دیکھا ہے۔ ایسی احادیث کا فیصلہ محدثین کے اصول و قواعد کی رو سے کیا جائے گا بیچارے صوفیاء جن پر حسن ظن کا غلبہ رہتا ہے۔ ان حضرات کو تنقید و تفتیش کی فرصت کہاں؟ ان کے حسن ظن سے کسی قول کا حدیث رسول ہونا تو ثابت نہیں ہوجائے گا۔ (مکتوبات شیخ الاسلام ٣٠٧۔ ٣٠٨ بحوالہ اسلامی تصوف یوسف سلیم چشتی ١٢٣) صوفیہ کے اس نظریہ نے مسلمانوں کو جتنا نقصان پہنچایا شاید ہی کسی اور وجہ سے پہنچا ہو اس نظریہ نے مسلمانوں سے جہاد کی روح کو ختم کر کے دنیا میں ذلیل اور رسوا بنا دیا اور ایسے افعال سے مجاہدہ نفس شروع کیا جس سے انسانیت کو بھی شرم آنے لگے۔ دسویں صدی ہجری کے اواخر تک اس نظریہ نے مسلمانوں کو اس قدر مفلوج، کاہل اور بے فہم بنا دیا تھا کہ فرانسیسی فاتحین کے حملوں کا دفاع جامعہ ازہر میں بیٹھ کر اور اراد و وظائف کے ذریعے کر رہے تھے۔ نابلیوں کا انتخاب کر کے انہیں صوفیاء کی گودڑی پہنائی گئی اور اس کی رہنمائی میں ذکر و فکر کی مجالس قائم کی گئیں۔ بخاری شریف کا ختم بھی کرایا گیا۔ لیکن ان سب باتوں کا کچھ بھی فائدہ نہ ہوا اور مسلمان مار ہی کھاتے رہے۔ بالآخر جب مسلمان مجاہدین نے یورپ کی سرزمین میں لوگوں سے جنگیں کیں تب جا کر حالات نے پلٹا کھایا۔ (مقدمہ الفکرا لصوفی ٦) اس گوشہ نشینی کا جو اثر ان صوفیاء کی ذات پر مترتب ہوتا ہے وہ ابو بکر شبلی کی زبانی ملاحظہ فرمائیے۔ روایت ہے کہ کچھ عرصہ شبلی اپنے مقام سے غائب رہے۔ ہرچند تلاش کیا پتہ نہ چلا۔ ایک روز محفلوں کے گروہوں میں دیکھے گئے۔ لوگوں نے پوچھا اے شیخ! یہ کیا بات ہے؟ فرمایا : یہ گروہ (صوفیہ) دنیا میں نہ مرد ہیں نہ عورت۔ میں بھی اسی حالت میں گرفتار ہوں نہ مرد ہوں نہ عورت پس ناچار میری جگہ انہی میں ہے۔ (خزینۃ الاصفیاء ص ١٤٧) شیخ جنید کے مریدوں کا جہاد بالسیف :۔ شبلی کے پیر و مرشد جنید بغدادی کے مریدوں کو ایک دفعہ جہاد بالسیف کا شوق چرایا یہ داستان اس طرح ہے کہ شیخ جنید کے آٹھ مرید تھے جو سب کے سب کامل و اکمل تھے۔ ایک روز انہوں نے خدمت شیخ میں عرض کی کہ اے شیخ! شہادت ایک عجیب نعمت جان فزا ہے اس لیے شہادت کے لیے جہاد کرنا چاہیے شیخ نے ان کی تائید کی اور ان کے ساتھ ملک روم کی طرف جہاد کے لیے چل پڑے۔ ایک جگہ کفار سے مقابلہ ہوگیا۔ ایک گبر (آتش پرست) کے ہاتھوں شیخ کے آٹھوں مرید ایک ایک کر کے شہید ہوگئے۔ شیخ فرماتے ہیں کہ میں نے اس وقت ہوا میں نو کجاوے معلق دیکھے۔ میرے ساتھیوں میں سے جو شہید ہوتا تھا، اس کی روح ایک کجاوے میں رکھتے اور آسمان کی طرف لے جاتے۔ آخر ایک کجاوہ باقی رہ گیا۔ میں سمجھ گیا کہ یہ کجاوہ میرے لیے ہے اور جنگ میں مشغول ہوگیا دوران جنگ وہی گبر جس نے میرے ساتھیوں کو شہید کیا تھا میرے پاس آیا اور کہا : ابو القاسم ! یہ آخری کجاوہ میرے لیے ہے۔ تو واپس بغداد چلا جا اور اپنی قوم کی قیادت و سیادت کر اور اپنا مذہب میرے سامنے پیش کر۔ میں نے اسے تلقین کی وہ مسلمان ہوا اور کفار سے لڑتا ہوا شہید ہوگیا۔ میں نے دیکھا کہ اس آخری کجاوے میں اس کی روح کو آسمان کی طرف لے گئے ہیں (خزینۃ الاصفیاء ص ١٤٢) جہاد اکبر کے اس نظریہ کے اثرات :۔ خزینۃ الاصفیاء کی اس روایت سے درج ذیل نتائج سامنے آتے ہیں : ١۔ اللہ تعالیٰ نے ابتداً ء ایمان کا یہ معیار بتایا تھا کہ ایک مومن دس کافروں پر غالب ہونا چاہیے۔ بعد ازاں اس میں تخفیف کر کے یہ معیار مقرر ہوا کہ کم از کم ایک مومن کو دو کافروں پر ضرور بھاری ہونا چاہیے۔ مگر یہاں یہ صورت حال ہے کہ شیخ جنید کے آٹھ کامل و اکمل مرید ایک کافر کے ہاتھوں شہید ہو رہے ہیں چاہیے تو یہ تھا کہ اگر انہیں شہادت کا اتنا ہی شوق تھا تو بیس پچیس کافروں کو مار کر خود شہید ہوتے۔ مگر یہ سب ایک کافر کے ہاتھوں یوں مارے جا رہے ہیں جیسے قصاب بکروں کو ذبح کرتا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ معیار کے مطابق ان میں ایمان کا جتنا حصہ تھا وہ آپ خود ہی اندازہ فرما لیجئے۔ یہی وہ قباحت ہے جس کی بنا پر اسلام نے رہبانیت یا طریقت کو مذموم قرار دیا۔ ٢۔ شیخ جنید بغدادی کو خود اپنی شہادت کا بھی خطرہ لاحق ہو چلا تھا۔ وہ تو خیریت گزری کہ اس گبر کا نور فراست شیخ جنید کے نور فراست سے زیادہ تھا اور اس گبر کو شیخ جنید سے پہلے معلوم ہوگیا کہ نواں کجا وہ شیخ کے لیے نہیں بلکہ میرے لیے ہے۔ ٣۔ اسلام لانے کا یہ بھی کیسا انوکھا طریقہ ہے کہ کافر خود کسی مسلمان کو کہے کہ میرے سامنے اسلام پیش کر تاکہ میں اسلام لاؤں۔ بہرحال ولایت کی دنیا الگ ہے اور بمصداق 'رموز مملکت خویش خسرواں دانند' یہ بات بھی تسلیم کر ہی لینی چاہیے۔ ٤۔ البتہ اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ روم تو سارا عہد فاروقی اور عہد عثمانی میں فتح ہوچکا تھا اور شیخ جنید کے زمانہ میں بغداد سے لے کر روم تک سارا علاقہ اسلامی مملکت میں شامل تھا تو روم کے راستے میں ان کو کفار کا لشکر کہاں ملا تھا ؟ ٥۔ اس قصہ سے بہرحال یہ ضرور معلوم ہوجاتا ہے کہ صوفیہ کے اس 'نظریہ جہاد اکبر' کے نظریہ نے مسلمانوں کو کس قدر نقصان پہنچایا ہے۔ [١٣٣] اور تیسری بات اس آیت سے یہ معلوم ہوئی کہ جنت میں داخلہ کے لیے جہاد لازمی شرط نہیں ہے بلکہ توحید پر ثابت قدم رہنے والے اور دوسرے احکام الہی بجا لانے والے مسلمان بھی جنت میں ضرور جائیں گے اگرچہ انکے درجات مجاہدین فی سبیل اللہ سے کم ہوں گے۔