وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَىٰ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِن بَعْدِهِ وَأَنتُمْ ظَالِمُونَ
اور (وہ واقعہ بھی یاد کرو) جب ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو چالیس راتوں کے وعدہ پر (میقات پر) بلایا تو ان کی غیر موجودگی میں تم نے بچھڑے کو معبود بنا لیا اور تم فی الواقع ظالم تھے
بنی اسرائیل کی گؤ سالہ پرستی :۔ فرعون کی غرقابی کے بعد بنی اسرائیل جب جزیرہ نمائے سینا میں پہنچ گئے، تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو چالیس راتوں کے لیے کوہ طور پر طلب فرمایا تاکہ اس نئی آزاد شدہ قوم (بنی اسرائیل) کو عملی ہدایات و احکام عطا کئے جائیں۔ موسیٰ علیہ السلام کے جانے کے بعد اس قوم نے گؤ سالہ پرستی شروع کردی۔ مصر میں گؤ سالہ پرستی کا عام رواج تھا۔ سیدنا یوسف علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل انحطاط کا شکار ہوگئے اور رفتہ رفتہ قبطیوں (فرعونیوں) کے غلام بن گئے۔ انہیں کی بود و باش اپنانے میں عافیت سمجھی اور منجملہ دوسری رذیلہ امراض کے گؤ سالہ پرستی کو بھی اپنا لیا۔ فرعون سے نجات پا جانے کے بعد تاحال گؤ سالہ پرستی کے جراثیم ان سے ختم نہیں ہوئے تھے۔