وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ
اور جنگلی جانور اکٹھے کردیئے [٦] جائیں گے
[٦] یہ بھی قیامت کی دہشت کا اثر ہوگا اور اس دہشت کا اثر جانوروں پر یہ ہوگا کہ مثلاً سانپ کو ڈسنے کا ہوش نہ رہے گا اور شیر کو پھاڑ کھانے کا۔ یہ سب وحشی جانور انسانوں کی آبادیوں اور شہروں کی طرف نکل آئیں گے اور اپنے بل اور کچھار وغیرہ چھوڑ دیں گے۔ ایسا منظر سیلاب کے دنوں میں دیکھنے میں آیا ہے کہ لکڑیوں کے سیلاب کے پانی پر تیرتے ہوئے ایک گٹھے پر انسان بھی پناہ لیے بیٹھے ہیں اور سانپ بھی۔ سانپ انسانوں کو کچھ نہیں کہتے اور انسان سانپوں کو بس ہر ایک کو اپنی اپنی پڑی ہوتی ہے۔ قیامت کے وقت بھی یہی حال ہوگا کہ کیا درندے کیا مویشی اور دوسرے جانور اور کیا انسان سب اپنے گھروں سے نکل کر میدانوں میں آ اکٹھے ہونگے اور اس آیت کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے جو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن جانوروں کے ایک دوسرے پر ظلم کا قصاص دلایا جائے گا حتیٰ کہ ایک سینگ والی بکری نے بے سینگ بکری کو مارا ہوگا تو اس کا بھی قصاص دلایا جائے۔ (مسلم۔ کتاب البر والصلۃ والادب۔ باب تحریم الظلم) پھر قصاص کے بعد ان جانوروں کو خاک بنا دیا جائے گا۔