أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّوا أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللَّهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةً ۚ وَقَالُوا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ لَوْلَا أَخَّرْتَنَا إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ ۗ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقَىٰ وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِيلًا
کیا آپ نے ان لوگوں کے حال پر غور نہیں کیا جنہیں کہا گیا تھا کہ (ابھی جنگ سے) ہاتھ روکے رکھو اور (ابھی صرف) نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو۔ [١٠٦] پھر جب ان پر جہاد فرض کیا گیا تو ان میں سے کچھ لوگ، لوگوں سے یوں ڈرنے لگے جیسے اللہ سے ڈرنا چاہئے۔ یا اس سے بھی زیادہ۔ اور کہنے لگے : اے ہمارے رب! ''تو نے ہم پر جنگ کیوں فرض کردی، ہمیں مزید کچھ عرصہ کے لیے کیوں مہلت [١٠٧] نہ دی؟'' آپ ان سے کہئے کہ : دنیا کا آرام تو چند روزہ ہے اور ایک پرہیزگار کے لیے آخرت ہی بہتر ہے'' اور ان پر ذرہ بھر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا
[١٠٦] مکہ میں جہاد پر بندش :۔ مکہ میں مسلمانوں پر قریش مکہ نے جو ظلم و ستم ڈھائے تھے ان کا نشانہ صرف غلام مسلمان ہی نہ تھے، بلکہ آزاد اور معزز قسم کے مسلمانوں کا بھی ان لوگوں نے طرح طرح سے عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا۔ حتیٰ کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان لوگوں کے ہاتھوں متعدد بار ایذائیں پہنچیں۔ اس وقت بعض جرأت مند مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان لوگوں کے ساتھ جنگ کی اجازت چاہی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابھی مجھے جنگ کی اجازت نہیں دی گئی۔ لہٰذا تم بھی ان مصائب کو صبر سے برداشت کیے جاؤ اور اپنی تمام تر توجہ نماز کے قیام اور زکوٰۃ کی ادائیگی پر صرف کرو۔ چنانچہ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ جو السابقون الاولون میں سے تھے انہی لوگوں میں سے تھے جو جنگ کی اجازت چاہ رہے تھے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے : سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی مکہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا ’’اللہ کے رسول ! ہم عزت والے تھے جبکہ ہم مشرک تھے پھر جب ایمان لائے تو ذلیل ہو گئے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’(ابھی) مجھے درگزر کرنے کا حکم دیا گیا ہے لہٰذا جنگ نہ کرو۔‘‘ پھر جب اللہ نے ہمیں مدینہ منتقل کردیا تو ہمیں جنگ کا حکم دیا گیا اور بعض لوگ جنگ سے رک گئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (نسائی۔ کتاب الجہاد، باب وجوب الجہاد) کیاوحی ساری کی ساری قرآن میں محصور ہے؟ یہاں چند امور کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ سورۃ نساء مدنی دور میں غزوہ احد اور غزوہ احزاب کے درمیانی عرصہ میں نازل ہوئی تھی اور اس آیت کے الفاظ ﴿قِیْلَ لَھُمْ کُفُّوْٓا اَیْدِیَکُمْ ﴾ سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ مکی دور میں مسلمانوں کو ہاتھ اٹھانے سے روک دیا گیا تھا۔ حالانکہ قرآن کی مکی سورتوں میں ایسا کوئی حکم موجود نہیں ہے۔ اب دو ہی صورتیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بذریعہ وحی خفی کوئی ایسا حکم ملا ہو جس کی بعد میں مدنی دور میں اس آیت کے ذریعہ توثیق کردی گئی۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ یہ آپ کا ذاتی اجتہاد ہو کہ اس انقلابی تحریک کے آغاز میں مسلمانوں کو قطعاً ہاتھ نہ اٹھانا چاہئے۔ آپ کے اس اجتہاد پر چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نکیر وارد نہیں ہوئی لہٰذا یہ اجتہاد وحی تقریری کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے ان لوگوں کا رد ہوا جو کہتے ہیں کہ وحی تمام تر قرآن میں محصور ہے اور وحی خفی یا وحی تقریری کی کچھ حیثیت نہیں سمجھتے۔ اور دوسرے یہ بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات بھی ویسے ہی واجب الاتباع ہیں جیسے قرآن کے احکام۔ مکی دور میں ہاتھ نہ اٹھانے یا عدم تشدد کے فوائد :۔ دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس تیرہ سالہ طویل دور میں، جبکہ مسلمانوں پر کفار انتہائی شدید قسم کے مظالم ڈھا رہے تھے مسلمانوں کو ہاتھ اٹھانے یا مدافعت کرنے سے کیوں روک دیا گیا تھا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام ایک انقلابی تحریک ہے۔ عرب کے تمام تر معاشرتی، سیاسی اور تمدنی نظام کی بنیاد بت پرستی پر قائم تھی۔ اور اسلام نے اسی بت پرستی کے خلاف ہی سب سے پہلے آواز بلند کی۔ تو اس باطل نظام میں جو لوگ معاشی، تمدنی یا سیاسی فائدے اٹھا رہے تھے وہ سب اسلام، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کے دشمن بن گئے۔ اور ان پر سختیاں شروع کردیں۔ اس مرحلہ پر مسلمانوں کو تاکیدی حکم یہ دیا گیا کہ اپنی مدافعت میں ہاتھ تک نہ اٹھائیں بلکہ جیسے بھی ظلم و ستم ان پر ہو رہے ہیں وہ برداشت کرتے جائیں۔ اس عدم تشدد کے حکم یا پالیسی سے تین قسم کے فوائد حاصل ہوئے۔ پہلا یہ کہ اگر مسلمان اس مرحلہ پر مقابلہ شروع کردیتے تو مشرکین کو جو قوت، قدرت میں مسلمانوں سے بدرجہا بڑھ کر تھے اس تحریک کو شدت کے ساتھ کچل دینے کا اخلاقی جواز ہاتھ آجاتا۔ اس عدم تشدد کی پالیسی کی وجہ سے تبلیغ کا کام جاری رہا اور یہ اسی صورت میں ممکن تھا۔ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کو مصائب برداشت کرنے اور قائد تحریک نبی اکرم کا ہر حال میں حکم ماننے کی تربیت دی جارہی تھی۔ اور تیسرا فائدہ یہ ہوا کہ غیر جانبدار قسم کے لوگوں کی خاموش اکثریت کی ہمدردیاں مسلمانوں سے وابستہ ہوگئیں۔ کیونکہ ہر انسان ناروا ظلم سے طبعاً نفرت کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جب پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ گھبرائے ہوئے گھر آئے تو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے ہاں لے گئیں جنہوں نے تمام ماجرا سن کر کہا :’’کاش! میں اس وقت تک زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کو مکہ سے نکال دے گی‘‘ ورقہ کی یہ بات سن کر آپ کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جو قوم آج تک مجھے اپنی آنکھوں کا تارا سمجھتی ہے وہ کل کو مجھے مکہ سے نکال دے گی؟ چنانچہ آپ نے نہایت تعجب سے ورقہ سے یہی سوال کیا تو اس نے کہا کہ جو نبی بھی ایسی دعوت لے کر آیا، اس کی قوم نے اس سے ایسا ہی سلوک کیا، (بخاری۔ کتاب الوحی) ورقہ کی اس اطلاع کا آپ پر یہ اثر ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت کو ناکامی سے بچانے کی خاطر اپنی دعوت کا آغاز نہایت خفیہ طریق سے اور اپنے گھر سے کیا اور گھر کے درج ذیل افراد فوراً آپ پر ایمان لے آئے : (١) آغازوحی کے وقت اسلام لانے والے :۔ آپ کی جان نثار بیوی سیدہ خدیجۃ رضی اللہ عنہا جن کی عمر اس وقت ٥٥ سال تھی۔ (٢) آپ کے غلام زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ جو فی الحقیقت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے غلام تھے۔ لیکن انہوں نے اسے آپ کو دے دیا تھا۔ (٣) سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب جو آپ کے چچا ابو طالب کے بیٹے تھے۔ آپ کے زیر کفالت اور آپ ہی کے گھر میں رہتے تھے۔ اس وقت ان کی عمر ایک روایت کے مطابق ٨ سال اور دوسری کے مطابق ١٠ سال تھی۔ بہرحال اس وقت وہ ایسا شعور ضرور رکھتے تھے۔ اولاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم :۔ آپ کی اولاد میں سے ایسا کوئی بھی نہ تھا جو اس وقت آپ پر ایمان لاتا۔ آپ کی پہلونٹی کی بیٹی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا تھیں جن کا نکاح ابو العاص بن ربیع سے ہوچکا تھا۔ سیدہ زینب تو بعد میں جلد ہی ایمان لے آئیں مگر ابو العاص فتح مکہ کے بعد ایمان لائے تاہم ابو العاص کے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے اور اپنے داماد سے خوش رہے۔ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب ذکر اصہار النبی) دوسرے نمبر پر آپ کے بیٹے سیدنا قاسم تھے۔ اسی نام کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت ابو القاسم تھی۔ یہ بعثت سے پہلے وفات پاچکے تھے۔ تیسرے نمبر پر آپ کی بیٹی رقیہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ بعثت نبوی کے وقت ان کی عمر صرف چھ سات برس تھی۔ بعد میں ان کا نکاح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے ہوا اور جس دن مسلمانوں کو مدینہ میں فتح بدر کی خوشخبری ملی اسی دن آپ رضی اللہ عنہا نے وفات پائی۔ چوتھے نمبر پر ام کلثوم رضی اللہ عنہا تھیں۔ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد ان کا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے نکاح ہوا۔ پانچویں نمبر پر آپ کے بیٹے عبداللہ تھے جنہیں طیب اور طاہر بھی کہا جاتا ہے۔ یہ سن بلوغ کو پہنچنے سے قبل ہی فوت ہوگئے۔ چھٹے نمبر پر آپ کی سب سے چھوٹی بیٹی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا تھیں جن کی عمر اس وقت صرف ایک سال تھی۔ پندرہ برس کی عمر میں آپ کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے نکاح ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے وقت آپ کی اولاد میں سے صرف یہی زندہ تھیں۔ چھ ماہ بعد یہ بھی فوت ہوگئیں۔ السابقون الاولون:۔ گھر کے باہر کے لوگوں میں سے سب سے پہلے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ ایمان لائے۔ آپ ماہر انساب، صاحب الرائے، دولت مند اور فیاض انسان تھے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دلی دوست، آپ کے اخلاق سے متاثر اور بعثت نبوی سے پہلے ہی شرکیہ اعمال و عقائد سے متنفر تھے۔ مکہ میں آپ کا خاصا اثر و رسوخ تھا۔ آپ ہی کی درپردہ کوششوں سے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ اور طلحہ رضی اللہ عنہ ایمان لائے۔ پھر ان سب حضرات کی مشترکہ کوششوں اور رازدارانہ تبلیغ سے درج ذیل حضرات ایمان لائے : سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ ۔ پھر ان کی تبلیغ سے ان کے والد یاسر رضی اللہ عنہ اور والدہ سمیہ رضی اللہ عنہ بھی اسلام لے آئے یہ لوگ ابو جہل کے قبیلہ بنو مخزوم کے غلام تھے۔ سیدنا بلال بن رباح رضی اللہ عنہ جو امیہ بن خلف کے غلام تھے۔ جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سفارش پر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے خرید کر آزاد کردیا۔ سیدنا خباب رضی اللہ عنہ بن ارت، سیدنا ارقم، سیدنا سعید رضی اللہ عنہ بن زید (سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بہنوئی) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ، عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ ، ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ ، صہیب رومی رضی اللہ عنہ ہیں۔ خفیہ تبلیغ کے تین سال :۔ ابتدائی تین سال تبلیغ یونہی سینہ بہ سینہ ہوتی رہی حتیٰ کہ مسلمانوں کی تعداد چالیس تک پہنچ گئی۔ یہ اصحاب عبادت بھی چھپ چھپا کر کرتے تھے اور دارارقم کو مرکز بنا لیا گیا تھا۔ اسی دور میں قائد تحریک حضور اکرم کو کفار نے اپنی طنز، تشنیع اور تضحیک کا نشانہ بنایا تھا۔ کبھی وہ آپ کو کاہن کہتے، کبھی شاعر، کبھی دیوانہ، کبھی اللہ کی آیات کا تمسخر اڑاتے اور کبھی آنکھوں ہی آنکھوں میں آپ کو مرعوب بنا کر آپ کے عزم اور ہمت کو شکست دینا چاہتے تھے۔ اس دور میں مشرکین مکہ کا مسلمانوں پر دباؤ کتنا تھا اور کسی کا اسلام لانا کس قدر کٹھن اور جان جوکھوں کا کام تھا اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے جسے سیدنا ابو ذرغفاری رضی اللہ عنہ نے اپنے اسلام لانے سے متعلق خود بیان کیا ہے اور جسے ہم نے صحیح بخاری سے سورۃ انفال کے حاشیہ نمبر ٢٦ میں درج کیا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ صحیح مسلم میں مذکور ہے۔ سیدنا عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ نے بھی انہی ایام میں اسلام قبول کیا تھا۔ عمرو ایام جاہلیت میں ہی یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ تمام لوگ مشرک اور گمراہ ہیں۔ جب انہوں نے سنا کہ مکہ میں ایک شخص آسمانی خبریں بیان کرتا ہے تو فوراً سوار ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے اور فوراً اسلام لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ضروری احکام کی تعلیم دی اور مشورہ دیا کہ فی الحال اپنے وطن واپس چلے جاؤ اور جب تم سنو کہ اسلام کو غلبہ ہوگیا ہے تو پھر تم میرے پاس چلے آنا۔ (مسلم۔ کتاب الصلٰوۃ۔ باب الاسلام عمرو بن عبسہ) اور یہ وہی مشورہ تھا جو اس سے پہلے آپ نے سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کو بھی دیا تھا اور یہ مشورہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان نو مسلموں سے ہمدردی کی خاطر دیتے تھے مکہ میں تو یہ حال تھا کہ جس شخص کے متعلق پتہ چل جاتا کہ وہ مسلمان ہوگیا ہے، اس کی شامت آجاتی تھی۔ پھر ان سب مسلمانوں کو جتنا دکھ پہنچتا تھا، اکیلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اتنا دکھ پہنچ جاتا تھا۔ کیونکہ آپ رحمۃ للعالمین تھے اور دردمند دل رکھتے تھے۔ علاوہ ازیں معاشی مسئلہ بھی پیدا ہوجاتا تھا جس کے حل کرنے پر اس وقت مسلمان کچھ قدرت نہ رکھتے تھے۔ علی الاعلام تبلیغ اورا س کے اثرات :۔ نبوت کے پہلے تین سال تبلیغ کا یہی انداز رہا پھر جب ﴿ وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ﴾ (26: 214)’’اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ‘‘ کا فرمان باری نازل ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یکے بعد دیگرے تین بار اپنے قبیلہ والوں کو اکٹھا کیا اور ان پر اسلام پیش کیا۔ مگر ہر بار ابو لہب ہی آڑے آتا اور مخالفت میں پیش پیش رہتا تھا جس کا تفصیلی ذکر اسی مندرجہ آیت کے تحت اور سورۃ لہب میں آئے گا اس کے بعد اب پہلا سا خفیہ طریقہ تبلیغ نہ رہا اور مشرکین کو کسی نہ کسی حد تک یہ بھی معلوم ہوچکا تھا کہ کون کون شخص اسلام لا چکا ہے۔ لہٰذا انہوں نے اسلام، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کو سختی سے کچل ڈالنے کے مشن کو پہلے سے تیز تر کردیا۔ جو منصوبے پیغمبر اسلام کو ختم کرنے کے لئے بنائے گئے اور سازشیں کی گئیں ان کا ذکر تو ﴿وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ﴾کے تحت سورۃ مائدہ کے حاشیہ نمبر ١١٣ میں آئے گا۔ یہاں ہم صرف ان مظالم کا اجمالاً ذکر کریں گے جو اس دور میں مسلمانوں پر ڈھائے گئے۔ عرب معاشرہ میں غلاموں کا طبقہ بھی معاشرہ کا ایک معتدبہ حصہ تھا۔ جنہیں انسان سمجھا ہی نہیں جاتا تھا۔ مالک اپنے غلام پر جتنا بھی ظلم روا رکھے، حتیٰ کہ جان سے بھی مار ڈالے تو اسے کوئی پوچھنے والا نہ تھا بلکہ آزاد معاشرہ کو اسی کی تائید و حمایت حاصل تھی اور غلاموں میں اپنے مالک کے سامنے نہ چوں و چرا کرنے کی ہمت تھی اور نہ بھاگ جانے کی۔ لہٰذا زیادہ تشدد کا یہی طبقہ شکار ہوا۔ ابو جہل کے آل یاسر پر مظالم :۔ ابو جہل کا مسلمانوں پر جبر و ستم ڈھانے کا طریقہ کار یہ تھا کہ اگر اسلام لانے والا کوئی آزاد، معزز اور طاقتور آدمی ہوتا تو اسے برا بھلا کہنے، ذلیل و رسوا کرنے اور اس کے مال و جاہ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا اور عرب کے قبائلی نظام میں وہ اس سے زیادہ کچھ کر بھی نہ سکتا تھا۔ اور اگر اسلام لانے والا کوئی غلام یا کمزور آدمی ہوتا تو اسے خود بھی مارتا اور دوسروں کو بھی ایذا رسانی پر اکساتا رہتا۔ اور اس معاملہ میں نہایت سنگدل واقع ہوا تھا۔ آل یاسر یعنی سیدنا عمار رضی اللہ عنہ ، ان کے والد یاسر اور والدہ سمیہ اسلام لاچکے تھے۔ یہ قبیلہ بنومخزوم (یعنی ابو جہل کے اپنے قبیلے کے) غلام تھے۔ ان پر ابو جہل نے خوب مشق ظلم و ستم کی اور اس قدر مظالم ڈھائے کہ یاسر ان کی تاب نہ لا کر راہی ملک عدم ہوئے۔ ان کی بیوی سمیہ کو اس بدبخت نے شرمگاہ میں نیزہ مار کر ہلاک کردیا۔ اسلام میں یہ پہلی شہیدہ ہیں جو اس بیدردی اور بے رحمی سے شہید کی گئیں۔ رہے عمار رضی اللہ عنہ خود تو انہیں کبھی کڑکتی دوپہر میں پتھریلی زمین پر ننگا لٹا کر اوپر سرخ اور وزنی پتھر رکھ دیا جاتا اور کبھی پانی میں غوطے دیئے جاتے۔ ایک دفعہ آپ کو ننگے بدن دوپہر کو پتھریلی زمین پر لٹا کر اذیتیں دی جارہی تھیں کہ ادھر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر ہوا۔ وہ ہستی جو سارے جہان کے لئے رحمت بن کر مبعوث ہوئی تھی، یہ نظارہ دیکھ کر آپ کے دل پر جو بیتی ہوگی وہ اللہ ہی جانتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ آپ صبر و استقامت کے عظیم پیکر بھی تھے۔ پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور انہیں دلاسا دیتے ہوئے فرمایا : (اصبروا ال یاسر فان موعد کم الجنۃ) ’’آل یاسر! صبر پر قائم رہنا، تمہارے لئے جنت کا وعدہ ہے‘‘ امیہ بن خلف کے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ پر مظالم : سیدنا بلال بن رباح رضی اللہ عنہ (حبشی) امیہ بن خلف کے غلام تھے۔ امیہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کے گلے میں رسی ڈال کر انہیں گلی محلے کے اوباش لڑکوں کے حوالے کردیتا اور وہ انہیں مکہ کے پہاڑوں کی وادیوں میں گھسیٹتے پھرتے جس سے بدن زخمی ہوجاتا اور گلے میں رسی کا نشان پڑجاتا۔ خود امیہ انہیں رسی سے باندھ کر ڈنڈے مارا کرتا۔ کبھی چلچلاتی دھوپ میں بٹھائے رکھتا اور کھانے پینے کو کچھ نہ دیتا اور سینہ پر بھاری پتھر رکھ دیتا۔ پھر کہتا : اللہ کی قسم! تو اسی طرح پڑا رہے گا تاآنکہ تو مرجائے یا پھر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کفر کرے۔ لیکن ایمان کا مزا بھی کچھ عجیب ہی قسم کا ہوتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ یہ سب تکلیفیں برداشت کرتے مگر زبان سے احد احد ہی پکارتے تھے۔ (سیرۃ النبی ج ١ ص ٢٣٢) ایک دن آپ رضی اللہ عنہ کو ایسی ہی اذیتیں دی جارہی تھیں کہ ادھر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر ہوا۔ آپ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ پر یہ ظلم برداشت نہ کرسکے۔ لہٰذا سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ بلال رضی اللہ عنہ کو اس مصیبت سے نجات دلائیں۔ چنانچہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے امیہ بن خلف کو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی منہ مانگی قیمت ادا کرکے خریدا، پھر آزاد کردیا۔ ایک روایت کے مطابق یہ قیمت ایک کلو سے زائد چاندی تھی۔ (ابن ہشام ٩: ٣١٧-٣١٨ رحمۃ للعالمین ١: ٥٧) سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کے ذریعہ امیہ بن خلف کی دردناک موت :۔ اب حالات نے یوں پلٹا کھایا کہ جنگ بدر میں میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا۔ جاہلیت کے دور میں امیہ بن خلف اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ میں دوستی تھی۔ جب مسلمان کافروں کو گرفتار کر رہے اور مال غنیمت اکٹھا کر رہے تھے اس وقت سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ چند زرہیں سنبھالے جارہے تھے۔ امیہ نے انہیں دیکھ لیا اور پکار کر کہا : تمہیں میری ضرورت ہے؟ میں تمہاری ان زرہوں سے بہتر ہوں۔ امیہ کا مطلب یہ تھا کہ اگر عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ مجھے قیدی بنا کر اپنی پناہ میں لے لیں تو میں کم از کم جان سے تو بچ جاؤں گا اور اگر زندہ رہا تو انہیں اس کام کا اتنا معاوضہ دوں گا جو ان زرہوں سے کہیں بہتر ہوگا۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں کہ میں امیہ بن خلف اور اس کے بیٹے علی دونوں کو گرفتار کرکے آگے بڑھا ہی تھا کہ اتفاق سے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی نظر امیہ بن خلف پر پڑگئی۔ امیہ کو دیکھتے ہی انہیں وہ زمانہ یاد آگیا جب امیہ ان پر مشق ستم کیا کرتا تھا۔ وہ فوراً پکار اٹھے ’’اوہ! کفر کا سر! امیہ بن خلف! آج یا میں زندہ رہوں گا یا یہ زندہ رہے گا‘‘ میں نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو بہتیرا سمجھایا کہ یہ میرا قیدی ہے مگر وہ کسی صورت نہ مانے اور انصار کو بلا کر وہی بات کہی کہ ’’آج یا میں زندہ رہوں گا یا یہ کفر کا سر‘‘ چنانچہ ان لوگوں نے ہمیں گھیرے میں لے لیا۔ میں ان کا بچاؤ کر رہا تھا بلکہ اپنے آپ کو امیہ پر ڈال رہا تھا۔ مگر ہجوم کے سامنے میری کچھ پیش نہ گئی۔ ان لوگوں نے امیہ کو میرے نیچے سے نکال کر باپ اور بیٹے دونوں کو بیدردی سے قتل کردیا۔ مرنے سے پہلے امیہ نے ایسی دردناک چیخ ماری جیسی میں نے پہلے کبھی نہ سنی تھی۔ سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے اللہ تعالیٰ بلال رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے۔ جنگ بدر کے دن میری زرہیں بھی گئیں اور میرے قیدی کے بارے میں مجھے تڑپا بھی دیا۔ (بخاری۔ کتاب الجہاد باب دعاء النبی علی المشرکین) ابو فکیہہ پر امیہ کے مظالم :۔ سیدنا ابو فکیہہ رضی اللہ عنہ، صفوان بن امیہ کے غلام تھے۔ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کے ساتھ اسلام لائے۔ امیہ کو جب یہ معلوم ہوا تو ان کے پاؤں میں رسی باندھی اور لوگوں سے کہا : اسے گھسیٹتے ہوئے لے جائیں اور تپتی ہوئی زمین پر لٹا دیں۔ ایک 'گبریلا' راہ میں جارہا تھا۔ امیہ نے ان سے کہا۔ کیا یہی تو تیرا خدا نہیں؟ ابو فکیہہ نے جواب دیا ’’ میرا اور تمہارا دونوں کا خدا اللہ تعالیٰ ہے‘‘ اس پر امیہ نے اس زور سے ان کا گلا گھونٹا کہ لوگ سمجھے کہ دم نکل گیا۔ ایک دفعہ ان کے سینے پر اتنا بھاری پتھر رکھ دیا کہ زبان باہر نکل آئی۔ (سیرۃ النبی، ج ١ ص ٢٣٤) خباب بن ارت پر مظالم :۔ سیدنا خباب رضی اللہ عنہ بن ارت نہایت شریف الطبع انسان تھے اور قبیلہ بنو خزاعہ کی ایک عورت ام انمار کے غلام تھے۔ مشرکین ان کے سر کے بال نوچتے۔ سختی سے گردن مروڑتے۔ ایک دفعہ دہکتے کوئلوں پر آپ رضی اللہ عنہ کو چت لٹا دیا گیا اور ایک شخص چھاتی پر پاؤں رکھے کھڑا رہا۔ تاکہ کروٹ نہ بدل سکیں۔ یہاں تک کہ پشت کے نیچے کے کوئلے ٹھنڈے پڑگئے۔ خباب رضی اللہ عنہ نے مدتوں بعد یہ واقعہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے بیان کیا اور پیٹھ کھول کر دکھائی جو برص کے داغ کی طرح سفید ہوگئی تھی۔ (سیرۃ النبی، ج ١ ص ٢٣٢) کنیزوں پر مظالم :۔ عورتیں بھی ایسے مظالم سے بچ نہ سکیں۔ سیدہ لبینہ ایک کنیز تھیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اسے مارتے مارتے تھک جاتے تو کہتے کہ میں نے تمہیں رحم کھا کر نہیں بلکہ اس لئے چھوڑا ہے کہ میں تھک گیا ہوں اور ذرا دم لے لوں۔ وہ نہایت استقلال سے جواب دیتیں کہ اگر تم اسلام نہ لاؤ گے تو اللہ اس کا انتقام لے گا۔ (حوالہ ایضاً) سیدہ زنیرہ رضی اللہ عنہا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے گھرانے کی کنیز تھیں۔ اس وجہ سے وہ اسے بہت تکلیفیں پہنچاتے تھے۔ ابو جہل نے انہیں اس قدر مارا کہ ان کی آنکھیں جاتی رہیں۔ اسی طرح نہدیہ اور ام عبیس دونوں کنیزیں تھیں اور اسلام لانے کے جرم میں سخت مصیبتیں جھیلتی رہیں۔ (سیرۃ النبی، ج ١ ص ٢٣٢) سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پر مظالم :۔ اگرچہ مسلمانوں پر مشرکین کے مظالم و شدائد کا اصل ہدف لونڈی غلام قسم کے لوگ تھے تاہم آزاد اور معزز مسلمانوں پر مظالم کی فہرست بھی خاصی طویل ہے۔ سب سے زیادہ مظالم تو انبیاء پر ہی ڈھائے جاتے ہیں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مظالم کا قصہ دوسرے کئی مقامات پر مذکور ہے۔ یہاں ہم صحابہ پر مظالم کے چند واقعات مختصراً ذکر کریں گے۔ ان میں سرفہرست تو سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو لیجئے۔ آپ کا جس قدر مکہ میں اثر و رسوخ تھا اس کا کچھ ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ آپ نے کئی مسلمان غلاموں اور لونڈیوں کو خرید کر انہیں مشرکین کے مظالم سے نجات دلائی تھی۔ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ، عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ (جو ہجرت نبوی کے موقعہ پر آپ کے ساتھ تھے) لبینہ، زنیرہ، نہدیہ اور ام عبیس رضی اللہ عنهن کو آپ نے مالکوں کی منہ مانگی قیمت دے کر آزاد کردیا تھا۔ اور ان ایام میں آپ کے آزاد کردہ لونڈی، غلاموں کی تعداد سترہ تک پہنچ گئی تھی لیکن ان کا اپنا یہ حال تھا کہ ایک دفعہ قریش نے آپ کو بری طرح مارا۔ عتبہ بن ربیعہ نے آپ کو دو پیوند لگے جوتوں سے اس قدر مارا کہ چہرہ اور ناک کا پتا نہیں چلتا تھا۔ ان کے قبیلے بنوتمیم کے لوگ انہیں کپڑے میں لپیٹ کر گھر لے گئے ان کا یہی خیال تھا کہ اب زندہ نہ بچیں گے۔ کچھ دیر بعد انہیں ہوش آیا تو پہلی بات جو آپ نے زبان سے نکالی یہ تھی کہ اللہ کے رسول کس حال میں ہیں؟ اور جب تک انہیں ان کی خیریت معلوم نہ ہوئی انہوں نے کھانے پینے سے بھی انکار کردیا اور اپنی ماں کو اس بات پر مجبور کردیا کہ جیسے بھی بن پڑے وہ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں لے چلے۔ چنانچہ ان کی ماں انہیں آپ کے پاس لے گئیں اور جب ان کو معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول بخیرو عافیت ہیں، تب جاکر انہوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ (البدایہ والنہایہ، ٣: ٣٠) قریش مکہ کی ایسی ہی سختیوں سے تنگ آکر آپ رضی اللہ عنہ بھی حبشہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے اور برک غماد تک جا بھی پہنچے تھے کہ قبیلہ قارہ کا سردار ابن دغنہ انہیں اپنی پناہ میں لے کر واپس مکہ لے آیا۔ (بخاری۔ کتاب احادیث الانبیاء۔ باب ہجرۃ النبی ) سیدنا عمر کا گھر میں محصور ہونا :۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جیسے بہادر شخص کا یہ حال تھا کہ جب مشرکوں میں ان کے ایمان کی خبر پھیل گئی تو انہوں نے آپ کے گھر کا محاصرہ کرلیا اور آپ کو اپنی جان کا خطرہ لاحق ہوگیا اور آپ اپنے ہی گھر میں محصور ہوگئے۔ آخر عاص بن وائل سہمی نے، جو آپ کے قبیلہ کا حلیف تھا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اپنی پناہ میں لے کر ہجوم کو منتشر کردیا۔ (بخاری، کتاب المناقب، باب اسلام عمر بن الخطاب) سیدنا عثمان غنی بن عفان رضی اللہ عنہ صاحب عزوجاہ تھے مگر جب اسلام لائے تو ان کے چچا نے انہیں باندھ کر مارا تھا۔ (طبقات ترجمہ عثمان بن عفان) سیدنا سعید بن زید بن عمرو بن نفیل سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے چچازاد بھائی بھی تھے اور بہنوئی بھی۔ بہن اور بہنوئی دونوں اسلام لے آئے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جو ان کے بہت بعد اسلام لائے، ان دونوں کو رسیوں سے باندھ کر مارا کرتے تھے۔ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب اسلام سعید بن زیدرضي الله عنه) دوسرے آزاد مسلمانوں پر اکفر کے مظالم :۔ سیدنا ابو ذرغفاری رضی اللہ عنہ نے اسلام لانے کے بعد کعبہ میں کلمہ شہادت پکارا تو اس جرم میں ان کی دو بار پٹائی ہوئی۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ انہیں مشرکوں سے چھڑاتے رہے ان کا قصہ تفصیل سے سورۃ انفال کے حاشیہ نمبر ٢٦ میں مذکور ہے۔ سیدنا زبیر بن عوام کا مسلمان ہونے والوں میں پانچواں نمبر تھا۔ جب اسلام لائے تو ان کے چچا ان کو چٹائی میں لپیٹ کر ان کی ناک میں دھواں دیتے تھے۔ (سیرۃ النبی، ج ١ ص ٢٣٥) سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اسلام لائے تو انکی ماں نے ان کا دانہ پانی بند کردیا اور گھر سے باہر نکال دیا۔ (رحمۃ للعالمین ١: ٥٨) سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اسلام لائے تو آپ نے ارادہ کیا کہ کعبہ میں جاکر قرآن کریم بلند آواز سے پڑھیں۔ لوگوں نے منع کیا۔ لیکن آپ رضی اللہ عنہ باز نہ آئے اور مقام ابراہیم کے پاس کھڑے ہو کر بلند آواز سے سورۃ الرحمن کی تلاوت شروع کردی۔ قریش رحمان کے لفظ سے ہی چڑ گئے۔ ہر طرف سے آپ پر پل پڑے اور آپ کے منہ پر طمانچے مارنا شروع کردئے۔ آپ مار کھاتے رہے لیکن جہاں تک پڑھنا چاہتے تھے پڑھ کر دم لیا۔ (طبری، ج ٣ ص ١١٨٨) حبشہ کی طرف ہجرت :۔ غرض کوئی بھی مسلمان خواہ وہ کیسے عزوجاہ کا مالک تھا، مشرکین مکہ کے جورو ستم سے محفوظ نہ رہ سکا۔ اس طرح جب مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا تو آپ نے انہیں حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ چنانچہ پہلی دفعہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی سر کردگی میں گیارہ مرد اور چار عورتوں نے ہجرت کی۔ عورتوں میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی بیوی یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی رقیہ رضی اللہ عنہا بھی موجود تھیں۔ اس موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بعد یہ پہلا جوڑا ہے جو اللہ کی راہ میں ہجرت کے لئے نکلا۔ (رحمۃ للعالمین، ج ٢ باب بنات النبی) ہجرت حبشہ کا ذکر سورۃ مائدہ کے حاشیہ نمبر ١٣٩ میں تفصیل سے مذکور ہے۔ ہجرت حبشہ کے بعد بھی کفار کے تشدد کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔ بلکہ کفار کی طرف سے تشدد اور مسلمانوں کی طرف سے صبر و برداشت اور ہاتھ نہ اٹھانے کا یہ مرحلہ پورے مکی دور میں یعنی تیرہ سال پر محیط ہے۔ جس میں مسلمانوں کو نماز اور زکوٰۃ کے ذریعہ اپنے نفوس کا تزکیہ کرنے، مصائب پر صبر کرنے، اپنے قائد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکمل طور پر اطاعت کرنے کی تربیت دی جارہی تھی۔ کئی مسلمانوں نے جان کا نذرانہ پیش کردیا مگر نہ زبان سے کسی کو برا بھلا کہا اور نہ ہاتھ اٹھائے۔ حالانکہ موت کے وقت تو آقائی اور غلامی کے سب امتیازات اٹھ جاتے ہیں اور مرنے والا یہ چاہتا ہے کہ اسے مرنا ہی ہے تو دو چار کو مار کر مرے۔ بلکہ بلی بھی جب عاجز ہوتی ہے تو شیر پر حملہ کردیتی ہے۔ یہ بس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت اور مسلمانوں کی طرف سے مکمل اطاعت کا ہی اثر تھا کہ اسلام کی انقلابی تحریک ناکام ہونے سے محفوظ رہی اور ترقی کے مراحل طے کرتی گئی۔ پھر جب مسلمانوں کو مدینہ میں آزاد فضا میسر ہوگئی تو ہاتھ اٹھانے کی اجازت بھی مل گئی۔[١٠٧] اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ بات کہنے والے معاذ اللہ منافق تھے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ہر قسم کے معاشرہ میں تمام لوگ ایک ہی جیسے جرأت والے نہیں ہوتے، کچھ ناتواں اور کم ہمت ہوتے ہیں اور پورے مومن ہونے کے باوجود ہر ایک کی استعداد الگ ہوتی ہے۔ کوئی کسی کام کے لیے زیادہ موزوں ہوتا ہے اور کوئی دوسرا کسی اور کام کے لیے۔ لہٰذا جن کمزور دل لوگوں نے یہ بات کہی تھی اللہ تعالیٰ نے ان کی ڈھارس بندھاتے ہوئے فرمایا کہ ایسے لوگوں کو بھی پامردی دکھانا چاہیے کیونکہ یہ دنیا کی زندگی اور اس کے مفادات تو چند روزہ ہیں لہٰذا انہیں آخرت پر نظر رکھنی چاہیے جو ہر لحاظ سے بہتر ہے اور اگر ان کا عمل تھوڑا بھی ہوا تب بھی انہیں اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔