إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ
اپنے پروردگار کو دیکھتے ہوں [١٤] گے
[١٤] دیدار الہٰی میں لذت وسرور :۔ بے شمار احادیث سے بھی ثابت ہے کہ ایمانداروں کو آخرت میں اللہ اپنے دیدار سے مشرف فرمائے گا۔ وہ اس کو اسی طرح بے تکلف دیکھ سکیں گے جس طرح چاند کی طرف دیکھتے ہیں۔ البتہ کافر اور فاجر لوگ اللہ کے دیدار سے محروم رکھے جائیں گے۔ (٨٣: ١٥) دیدار الہٰی سب سے بڑی نعمت ہے :۔ کتاب و سنت میں یہ بھی صراحت سے مذکور ہے کہ اللہ کا دیدار جنت کی تمام نعمتوں سے بڑھ کر اور بڑی نعمت ہوگا اور اس دیدار میں کچھ ایسا کیف و سرور حاصل ہوگا کہ جب تک اللہ تعالیٰ اہل جنت کو اپنے دیدار سے مشرف فرمائے گا جنتی اور کسی نعمت کی طرف دیکھیں گے بھی نہیں۔ بلکہ ٹکٹکی باندھے اللہ تعالیٰ ہی کی طرف دیکھتے رہیں گے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کلام کیا تو اس کلام میں بھی اتنی لذت تھی کہ موسیٰ علیہ السلام چاہتے تھے کہ یہ گفتگو کے لمحات جس قدر ممکن ہو طویل سے طویل تر ہوسکیں۔ اور دیدار میں تو بہرحال سماعت سے بہت زیادہ لذت ہونا یقینی ہے۔ عقل پرستوں کی تاویلات :۔ بعض عقل پرستوں نے دیدار الٰہی سے متعلقہ آیات کی بھی تاویل کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ صرف اس لیے کہ اس طرح اللہ کے لئے ایک مخصوص جہت متعین کرنا پڑتی ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کی ذات جہات اور مکان کی حدود سے ماوریٰ ہے۔ ہم ان دوستوں سے یہی عرض کریں گے کہ آپ کو کس نے اس بات کا پابند بنایا ہے کہ تمام آیات اور صفات الٰہی کو اپنی عقل کے مطابق کرکے چھوڑیں۔ جو بات آپ کے بس کا روگ نہیں۔ اس میں آپ کیوں مداخلت بے جا کرتے ہیں۔ راہ صواب یہی ہے کہ جو بات اللہ اور اس کے رسول نے کہی ہے اسے جوں کا توں تسلیم کرلیا جائے۔ صفات الٰہی میں عقل انسانی کی مداخلت سے گمراہی کے سوا اور کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ رہی یہ بات کہ مومنوں کے چہرے کس وجہ سے تروتازہ ہوں گے تو اس کی ایک معقول وجہ تو یہی دیدارِ الٰہی کی نعمت ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ قیامت کے دن کے تمام تر حالات ان کی توقعات کے مطابق واقع ہوں گے۔ اس پر وہ اتنے خوش ہوں گے کہ ان کے چہرے ہشاش بشاش نظر آئیں گے۔