وَمَا جَعَلْنَا أَصْحَابَ النَّارِ إِلَّا مَلَائِكَةً ۙ وَمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ إِلَّا فِتْنَةً لِّلَّذِينَ كَفَرُوا لِيَسْتَيْقِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَيَزْدَادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيمَانًا ۙ وَلَا يَرْتَابَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَالْمُؤْمِنُونَ ۙ وَلِيَقُولَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْكَافِرُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَٰذَا مَثَلًا ۚ كَذَٰلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ ۚ وَمَا هِيَ إِلَّا ذِكْرَىٰ لِلْبَشَرِ
ہم نے دوزخ کے محافظ فرشتوں ہی کو بنایا ہے اور ان کی تعداد کو کافروں کے لیے آزمائش [١٤] بنا دیا ہے تاکہ اہل کتاب کو یقین آجائے اور ایمانداروں کا ایمان [١٥] زیادہ ہو۔ اور اہل کتاب اور ایماندار کسی شک میں نہ رہیں اور تاکہ دل کے مریض [١٦] اور کافر یہ کہیں کہ : بھلا اللہ کا اس مثال سے کیا مطلب؟ اسی طرح اللہ جسے چاہے گمراہ کردیتا ہے اور جسے چاہے ہدایت دیتا ہے اور آپ کے پروردگار کے لشکروں [١٧] کو خود اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور یہ (دوزخ کا ذکر) صرف اس لیے ہے کہ لوگوں کو نصیحت ہو۔
[١٤] انیس فرشتوں پر کافروں کا استہزا :۔ دوزخ پر انیس فرشتوں کے تقرر کی بات سن کر مشرکین ٹھٹھا کرنے لگے کہ ہم تو ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ پھر اگر ہمارے لیے جہنم کے عذاب کی بات درست ہوئی بھی تو یہ انیس ہمارا کیا بگاڑ لیں گے۔ ہم دس دس مل کر بھی ایک فرشتے کا مقابلہ نہ کرسکیں گے؟ ان میں سے ایک پہلوان ٹائپ آدمی کہنے لگا کہ ان میں سے سترہ کو تو میں سنبھال لوں گا۔ باقی دو سے تم نمٹ لینا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ یہ تمہاری سوچ بالکل غلط ہے وہ داروغے ہیں تو انیس مگر وہ آدمی نہیں بلکہ فرشتے ہیں اور تم کیا سمجھو کہ ایک فرشتہ کتنی قوت کا مالک ہوتا ہے؟ [١٥] یعنی اہل کتاب اور مومن لوگ فرشتوں پر بن دیکھے ایمان لانے والے ہیں اور ان فرشتوں کی قوت اور قدرت کا بھی انہیں علم ہے۔ لہٰذا وہ کبھی ایسا استہزا نہیں کرسکتے بلکہ ایسی آیات سنکر ان کے دل دہل جاتے ہیں اور ان کے ایمان میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ [١٦] اس آیت میں مرض سے مراد شک کی بیماری ہے۔ یعنی منافق اور کافر دونوں ہی ہدایت کی باتوں سے محروم رہتے ہیں۔ یعنی ایک ہی بات یا ایک ہی مثال سے بد بخت آدمی گمراہ ہوجاتا ہے۔ جبکہ سلیم الطبع آدمی اسی مثال سے ہدایت حاصل کرلیتا ہے۔ جس نے بہرحال نہ ماننے کا تہیہ کر رکھا ہو وہ ہر کام کی بات کو بھی ہنسی مذاق میں اڑا دیتا ہے اور جس کے دل میں اللہ کا خوف اور ہدایت کی طلب ہو اسی بات سے اس کے ایمان و یقین میں ترقی ہوتی جاتی ہے۔ [١٧] اللہ کے لشکر :۔ فرشتے بھی اور فرشتوں کے علاوہ جتنی بھی اللہ کی مخلوق ہے۔ اللہ اپنی ہر مخلوق سے لشکروں کا کام لے سکتا ہے۔ وہ ابابیلوں سے اصحاب الفیل کو پٹوا بھی سکتا ہے اور مروا بھی سکتا ہے۔ وہ ہواؤں کو حکم دے کر عاد جیسی قد آور، طاقتور اور سرکش قوم کا سرتوڑ سکتا ہے۔ بلکہ جس قدر بھی باطنی اسباب ہیں وہ سب اللہ کے کنٹرول میں ہیں اور وہ اللہ کے لشکر ہیں جن سے وہ جس قسم کا کام لینا چاہے لے سکتا ہے۔ کافروں سے جہنم کے فرشتوں کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ ان کے علاوہ دوسرے سب لوگوں کو بھی عبرت حاصل ہو۔