وَأَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ ۖ فَمَن يَسْتَمِعِ الْآنَ يَجِدْ لَهُ شِهَابًا رَّصَدًا
اور یہ کہ : ہم سننے کے لئے آسمان کے ٹھکانوں میں بیٹھا کرتے تھے مگر اب جو سننے کو کان لگائے تو وہ اپنے لیے ایک شہاب [٧] کو تاک لگائے ہوئے پاتا ہے
[٧] ایام جاہلیت میں کہانت کا کاروبار :۔ دور نبوی میں کہانت کا کاروبار خاصا چلتا تھا۔ اس کاروبار کی بنیاد یہ تھی کہ ان کاہنوں کا تعلق شیطانوں سے ہوتا تھا۔ چنانچہ ایک دفعہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ کاہنوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا فرماتے ہیں۔ فرمایا : ان کی باتیں محض لغو ہیں۔ صحابہ نے کہا : کبھی تو ان کی بات سچ بھی نکل آتی ہے۔ فرمایا : یہ وہ بات ہوتی ہے جو کاہن کو شیطان کے ذریعہ معلوم ہوتی ہے اور شیطان یہ خبر ملاء اعلیٰ سے اڑا لیتا ہے، پھر کاہن اس خبر میں سو جھوٹ ملالیتا ہے۔ (بخاری۔ باب الکہانۃ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد آسمان کے پہرے سخت کردیئے گئے۔ تاکہ کوئی شیطان آسمان کے قریب بھی نہ پھٹکنے پائے اور اس نظام کو سخت تر بنانے کی وجہ یہ تھی کہ وحی جو نبی آخر الزماں پر نازل ہونے والی اور ہو رہی ہے۔ اس کا کچھ بھی حصہ شیطان نہ سن پائے۔ اور اس سے ایک دوسرا مقصد از خود حاصل ہوگیا یعنی کاہنوں کو شیطانوں کے ذریعہ جو خبریں ملتی تھیں وہ بھی بند ہوگئیں۔ اسی کیفیت کو جن اپنی زبان میں بیان کر رہے ہیں۔