وَمَكَرُوا مَكْرًا كُبَّارًا
ان لوگوں نے بڑے بڑے [١٣] مکر و فریب کیے
[١٣] ان سرداروں نے اپنے پیروکاروں میں نوح علیہ السلام کی شخصیت کو ہمیشہ برے انداز میں ہی پیش کیا اور انہیں یہی باور کراتے رہے کہ یہ شخص تو محض اپنی بڑائی قائم کرنے کی خاطر یہ سارے پاپڑ بیل رہا ہے۔ اور وہ بات ہی ایسی انہونی کہتا ہے جو کم از کم ہماری عقل باور نہیں کرسکتی۔ یہ بھلا کیسے ممکن ہے کہ ایک اکیلا خدا ہی کائنات کا سارا انتظام چلا رہا ہو۔ ہر ایک کی براہ راست فریاد سنتا ہو، پھر فریاد رسی بھی کرتا ہو۔ ہر بادشاہ کو اپنا انتظام سلطنت چلانے کے لیے بے شمار امیروں، وزیروں، ماتحتوں اور کارندوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور انہی کی وساطت سے بادشاہ تک فریاد پہنچائی جاسکتی ہے۔ پھر ہم اپنے معبودوں کا کیسے اس کے کہنے پر انکار کردیں۔ اس کی بات میں کچھ بھی وزن ہوتا تو اہل عقل اور شریف لوگ اس کے ساتھی ہوتے۔ اس کے بجائے اس کے جو چند ساتھی ہیں بھی تو وہ بدھو اور ذلیل قسم کے لوگ ہیں۔ اور ان باتوں کا انہوں نے اس طرح اجتماعی طور پر پروپیگنڈا کیا اور پوری قوم اس پروپیگنڈے سے اس قدر متاثر ہوچکی تھی کہ جو کوئی مرنے لگتا تو اولاد کو بڑی تاکید سے یہ وصیت کرجاتا کہ اس بڈھے نوح کے جال میں نہ پھنس جانا۔ یہ تو دیوانہ ہے جو چاہتا ہے کہ ہم اپنے آبائی دین کو خیرباد کہہ دیں۔