أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاتَّقُوهُ وَأَطِيعُونِ
کہ تم اللہ کی عبادت کرو، اس سے ڈرو اور میری اطاعت [٢] کرو
[٢] نوح کی دعوت کے نکات :۔ جب کوئی نبی مبعوث کیا جاتا ہے تو سب سے پہلے وہ خود اپنی نبوت پر ایمان لاتا ہے۔ بعد ازاں وہ اپنی قوم کے سامنے اپنی نبوت کا اعلان کرتا ہے۔ اپنے اس تعارف کے بعد وہ لوگوں کو اللہ کا پیغام سناتا ہے۔ نوح علیہ السلام نے بھی اپنی نبوت کا اعلان ان الفاظ میں فرمایا۔ ﴿اِنِّیْ لَکُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ ﴾ پھر اس کے بعد تین باتیں ارشاد فرمائیں۔ (١) صرف ایک اللہ کی عبادت کرو اور بتوں کی عبادت چھوڑ دو، (٢) ڈرو تو صرف اللہ سے ڈرو، بتوں سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ تمہارا یہ کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے۔ اللہ سے ڈرتے ہوئے اس کے احکام بجا لاؤ، (٣) اور اللہ کے احکام بجا لانے کی صورت یہ ہے کہ میری اطاعت کرو۔ اگر تم یہ تینوں کام سرانجام دو گے تو اللہ تمہارے سابقہ گناہ معاف فرما دے گا اور تمہیں تمہاری طبعی عمر تک زندہ رہنے دے گا تاکہ تم نیک اعمال بجا لاکر اخروی عذاب سے بچ جاؤ۔ اور اگر یہ باتیں نہ مانو گے تو پھر تمہاری طبعی موت سے پہلے ہی تم پر عذاب نازل کرے گا پھر اس وقت نہ تمہارا ایمان لانا کچھ فائدہ دے گا اور نہ ہی تمہیں کچھ مزید مہلت مل سکے گی۔ لہٰذا اس وقت جو تمہیں مہلت ملی ہوئی ہے اس میں اپنا نفع و نقصان خوب سوچ سمجھ لو اور سنبھل جاؤ۔ قوم کے مختلف جوابات :۔ یہ تھی وہ دعوت جو سیدنا نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کے سامنے پیش کی۔ اور اس قسم کی دعوت ہی حق و باطل کے درمیان محاذ آرائی کا نقطہ آغاز ہوتا ہے۔ چنانچہ قوم کے چودھری سینہ تان کر سیدنا نوح علیہ السلام کی مخالفت پر اتر آئے۔ کبھی کہتے : ارے! ہم میں اور تم میں فرق کیا ہے؟ تم بھی ہمارے جیسے ہی محتاج انسان ہو، تمہیں بھی ویسے ہی کھانے پینے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ جیسے ہم کھاتے پیتے ہیں۔ پھر ہم تمہاری اطاعت آخر کیوں کریں؟ کبھی کہتے کہ یہ تم سارے جہان سے نرالی اور ان ہونی بات کہتے ہو کہ ہم اپنے بتوں کی عبادت چھوڑ دیں۔ ایسی دیوانگی کی باتیں چھوڑ دو۔ کبھی کہتے کہ اگر تم ہمارے معبودوں کی توہین سے باز نہ آئے تو وہ تمہیں ایسی بری مار ماریں گے کہ پھر اٹھ نہ سکو گے، اور کبھی کہتے کہ جس عذاب کی تم دھمکی دے رہے ہو وہ لے کیوں نہیں آتے، اور کبھی کہتے : نوح )علیہ السلام ( ! یہ چند بدھو قسم کے لوگ تم نے اپنے ساتھ لگا لیے ہیں یہ تو ہمارے کمینے اور رذیل لوگ ہیں۔ ان کے بل بوتے پر تم ہم سے مطالبہ کرتے ہو کہ ہم بھی تمہاری اطاعت کریں؟ غرض سیدنا نوح اور ان کی قوم کے درمیان اس قسم کے مذاکرات آٹھ نو سو سالوں پر محیط ہیں جن کو اس مقام پر نظرانداز کردیا گیا ہے۔ اس طویل مدت کی تبلیغ کا جو نتیجہ سیدنا نوح علیہ السلام کی سمجھ میں آیا وہ ان الفاظ میں اپنے پروردگار کے سامنے پیش کرتے ہیں۔