أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا هَٰؤُلَاءِ أَهْدَىٰ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلًا
کیا آپ نے ان لوگوں کی حالت پر بھی غور کیا جنہیں کتاب کا کچھ علم دیا گیا ہے۔ وہ جبت [٨٣] اور طاغوت پر ایمان رکھتے ہیں اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ان ایمان والوں سے تو یہی لوگ زیادہ ہدایت یافتہ ہیں
[٨٣] جبت اور طاغوت جبت دراصل اوہام و خرافات کے لیے ایک جامع لفظ ہے جس میں جادو، ٹونے، ٹوٹکے، جنتر منتر سیاروں کے انسانی زندگی پر اثرات، فال گیری، گنڈے، نقش اور تعویذ وغیرہ سب کچھ شامل ہے۔ اور طاغوت ہر وہ باطل قوت اور نظام ہے جس کی اطاعت کرنے پر لوگ مجبور ہوں اور اللہ کی اطاعت کے مقابلہ میں انہیں اس فرد، ادارہ یا حکومت کی اطاعت کرنے پر مجبور کیا جائے یا مجبور بنا دیا جائے اور لوگ انہیں احکام الٰہیہ کے علی الرغم تسلیم کرلیں۔ یہ گاؤں کے چودھری بھی ہو سکتے ہیں، پیر و مشائخ بھی، سوشلزم یا جمہوریت کی طرح باطل نظام بھی۔ اور فرعون و نمرود کی طرح سرکش بادشاہ بھی۔ یہود کا مشرکوں کو مسلمانوں سے بہتر قرار دیا :۔ یعنی ان یہود و نصاریٰ کی اکثریت ایسی ہے جو اوہام و خرافات اور ٹونے ٹوٹکے کے پیچھے پڑی ہوئی ہے اور اللہ پر ایمان لانے کی بجائے طاغوت کے آگے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں۔ اپنی ایسی گمراہ حالت کے باوجود دوسرے کافروں (مشرکین وغیرہ) سے یہ کہتے ہیں کہ ان ایمان لانے والوں (مسلمانوں) سے تو تم ہی اچھے ہو اور ان سے زیادہ ہدایت یافتہ ہو۔ یعنی خود تو سراسر ضلالت میں ڈوبے ہیں اور مشرکوں کو مسلمانوں سے زیادہ ہدایت یافتہ ہونے کے سرٹیفکیٹ بھی دے رہے ہیں۔ یاد رہے کہ مشرکین مکہ نے جب بھی مدینہ پر چڑھائی کی تو یہود ہمیشہ قولاً اور عملاً ان کا ساتھ دیتے رہے۔ ایسے ہی کسی موقع پر مشرکوں نے یہودیوں سے پوچھا کہ سچ بتانا کہ یہ مسلمان بہتر ہیں یا ہم؟ اور ان سے پوچھا اس لیے گیا کہ عرب بھر میں یہود کی علمی ساکھ تھی۔ لیکن یہ بے ایمان محض مشرکوں کو خوش کرنے کی خاطر ایسا جواب دے دیتے۔ حالانکہ حقیقت انہیں پوری طرح معلوم تھی کہ شرک اللہ کے ہاں ناقابل معافی جرم ہے اور مسلمان موحد ہونے کی بنا پر مشرکوں سے ہزار درجہ بہتر ہیں۔