وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ
اور آپ یقیناً اخلاق کے بڑے بلند [٥] مرتبہ پر ہیں
[٥] آپ کا خلق عظیم :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی بلندی یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم طعن و تشنیع کرنے والوں، تمسخر اڑانے والوں، ایذا پہنچانے والوں حتیٰ کہ پتھر مارنے والوں کے حق میں دعائے خیر ہی کرتے رہے۔ پھر ایسے ہی لوگوں کی ہدایت پر آپ اتنے حریص واقع ہوئے تھے کہ اپنی جان تک اس کام میں ہلکان کر رہے تھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی سے اپنی ذات کی خاطر انتقام نہیں لیا۔ پھر جب مکہ فتح ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب جانی دشمن آپ کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں وہ بھی جنہوں نے آپ کو گھر بار چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا اور آپ کی جان کی قیمت لگا دی تھی، پھر کئی بار چڑھ کر مدینہ آتے رہے تاکہ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کردیں۔ اور اس وقت آپ ان سے بدلہ لینے کی قدرت و قوت بھی رکھتے تھے۔ لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ دشمن آپ کو ملتجیانہ نظروں سے دیکھنے لگے تو آپ نے ایک ہی جملہ لاَ تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ۔ اذْھَبُوْا أنْتُمُ الطُّلَقَاء کہہ کر سب کو معاف فرما دیا۔ یعنی آج تم پر کوئی مؤاخذہ نہیں۔ جاؤ تم سب کے سب آزاد ہو۔ یہ بلند اخلاقی تو آپ کی دشمنوں کے ساتھ تھی۔ آپ کا عام اخلاق یہ تھا کہ ایک بڑھیا آپ کی راہ روک کر آپ کو اپنی بات سنا لیتی تھی اور آپ برا نہ مانتے تھے۔ اس طرح آپ کے صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق کے بے شمار پہلو ہیں۔ جن سے کتب احادیث بھری پڑی ہیں۔ یہاں ان کا ذکر ناممکن ہے۔ چنانچہ ایک دفعہ کسی نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق کیا تھا ؟ تو آپ نے نہایت مختصر اور جامع جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ سارا قرآن ہی آپ کا اخلاق تھا۔