سورة النسآء - آیت 38

وَالَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ ۗ وَمَن يَكُنِ الشَّيْطَانُ لَهُ قَرِينًا فَسَاءَ قَرِينًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور ان لوگوں کے لئے بھی [٧١]، جو خرچ تو کرتے ہیں مگر لوگوں کو دکھانے کے لئے، وہ نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں نہ آخرت کے دن پر۔ اور (ایسی صفات رکھنے والے) جس شخص کا شیطان ساتھی بن گیا تو وہ بہت برا ساتھی ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٧١] ریاکاری کی وجہ :۔ اس آیت کا تعلق سابقہ مضمون سے بھی ہوسکتا ہے۔ تب اس کا معنیٰ یہ ہوگا کہ ان متکبر اور بڑ مارنے والوں کی دوسری صفت یہ ہے کہ اگر وہ خرچ کرتے بھی ہیں تو محض لوگوں کو دکھاوے کے لیے کرتے ہیں اللہ کی رضامندی کے لیے کرنا پڑے تو بخل کرتے ہیں اور اسے الگ بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ پہلی صورت میں اس کا خطاب سب کے لیے عام ہے۔ گویا یہ دو الگ الگ گناہ ہوئے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہو تو بخل سے کام لینا اور کھلے دل سے صرف اس وقت خرچ کرنا جبکہ نمود و نمائش ہی مقصود ہو اور ان دونوں گناہوں کا سبب یہ ہے کہ ایسے لوگوں کا یا تو اللہ پر اور آخرت پر ایمان ہی نہیں ہوتا اور اگر ہوتا ہے تو بہت ہی کمزور ہوتا ہے۔