قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَصْبَحَ مَاؤُكُمْ غَوْرًا فَمَن يَأْتِيكُم بِمَاءٍ مَّعِينٍ
آپ ان سے پوچھئے : ’’بھلا دیکھو! اگر تمہارا پانی گہرائیوں میں اتر جائے تو کون ہے جو تمہیں نتھرا [٣٣] پانی لا کر دے گا ؟‘‘
٣٣] زیر زمین پانی کے ذخیرے :۔ آسمان سے جو بارش برستی ہے اس کا کا ایک حصہ تو ندی، نالوں اور دریاؤں سے ہوتا ہوا سمندر میں جا گرتا ہے۔ اور ایک حصہ زمین میں جذب ہوجاتا ہے پھر کئی مقامات ایسے ہیں جہاں بارشیں بہت زیادہ ہوتی ہیں اور کئی مقامات پر بہت کم۔ علاوہ ازیں اگر زمین نرم ہو تو بہت زیادہ پانی چوس لیتی ہے اور اگر سخت یا پتھریلی ہو تو بہت کم پانی جذب کرتی ہے۔ ان باتوں کا نتیجہ یہ ہے کہ زمین کے نیچے پانی کے ذخیرے بھی موجود ہیں اور نیچے ہی نیچے اس پانی کے دریا بھی بہہ رہے ہیں۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ اگر علاقہ زیادہ بارشوں والا ہو اور زمین نرم ہو تو زمین کھودنے سے بیس پچاس فٹ کی گہرائی پر پانی مل جاتا ہے اور اگر علاقہ کم بارش والا اور زمین پتھریلی ہو تو ممکن ہے سینکڑوں فٹ کی گہرائی پر پانی نہ مل سکے۔ پھر ان زمین دوز پانی کے ذخیروں کے خواص بھی الگ الگ ہوتے ہیں کہیں گدلا، کھاری اور لیسدار پانی برآمد ہوتا ہے اور کہیں ٹھنڈا اور میٹھا پانی۔ بارش نہ ہونے کی صورت میں انسان بسا اوقات اپنی پانی پینے کی ضرورت اور کھیتوں کو آبپاشی کی ضرورت کو انہیں ذخیروں سے پورا کرلیتا ہے۔ نیز پانی کی گہرائی کا انحصار بعض دفعہ زمین میں موجود پتھریلی زمین کے بڑے بڑے قطعوں پر بھی ہوتا ہے اور یہ سب عوامل جن کا اوپر ذکر ہوا ہے صرف اللہ تعالیٰ کے قبضہ ئقدرت میں ہیں وہ خوب جانتا ہے کہ فلاں علاقے کے لوگوں کے لیے پانی کی ضروریات کس قسم کی ہیں۔ اسی بات کو ملحوظ رکھ کر اللہ تعالیٰ ہر مقام پر پانی کی گہرائی کا اہتمام فرماتا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ کافروں اور ناشکروں کے سامنے یہ سوال رکھتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ پانی کے ان ذخیروں کو اتنی گہرائی تک لے جائے جہاں سے پانی نکالنا تمہاری دسترس سے باہر ہو یا ان ذخیروں کو کھاری اور لیسدار بنا دے تو بتاؤ کیا تم ایک دن بھی زندہ رہ سکتے ہو؟ اللہ کے سوا تمہارے پاس کوئی اور ہستی ہے جو تمہیں ٹھنڈا اور میٹھا پانی مہیا کردے؟ واضح رہے کہ لغوی لحاظ سے غور یا غار کا معنی نشیبی زمین کی طرف نیچے اور غار بمعنی کھوہ، معروف لفظ ہے اور غور بمعنی نشیبی زمین بھی اور زیر زمین گہرائی بھی۔ گویا اس میں گہرائی کے ساتھ مکان کا تصور بھی پایا جاتا ہے۔ نیز معین کا ایک معنی تو اوپر مذکور ہوا اس کا دوسرا معنی پانی کا سطح زمین پر نرم رفتار سے بہنا ہے۔ یعنی سیلاب کی طرح تندی اور تیزی سے نہیں بلکہ نرمی اور سہولت سے جاری ہونے والا پانی۔ یعنی جب زمینی گہرائی سے پانی کنوؤں، نلکوں یا مشینوں سے نکالا جاتا ہے اور آبپاشی کے لیے استعمال ہوتا ہے تو اس پانی کی رفتار سیلاب کی طرح تند و تیز نہیں ہوتی بلکہ نرم اور دھیمی ہوتی ہے۔ روایات میں آیا ہے کہ جب کوئی شخص یہ آیت پڑھے تو اسے یوں کہنا چاہیے۔ اللّٰہُ یَاتِیْنَا بِہٖ وَھُوَ رَبُّنَا وَ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ