الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ
جس نے موت [٤] اور زندگی کو اس لیے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے [٥] اور وہ ہر چیز پر غالب بھی ہے اور بخش دینے والا بھی
[٤] موت ایک ایجابی چیز ہے جسے اللہ نے پہلے پیدا کیا تھا :۔ اللہ تعالیٰ نے موت کا نام زندگی سے پہلے لیا کہ اس نے موت کو بھی پیدا کیا۔ جس سے معلوم ہوا کہ موت محض ایک سلبی چیز نہیں بلکہ ایجابی چیز ہے۔ اور اس سے معتزلہ کے اس قول کی تردید ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ زندگی نہ ہونے کا نام ہی موت ہے۔ جبکہ اصل حقیقت یہ ہے موت روح اور جسم کے انفصال کا نام ہے اور زندگی ان دونوں کے اتصال کا۔ دنیوی زندگی سے پہلے موت سے مراد وہ دور ہے جب اللہ تعالیٰ نے سیدنا آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے کے بعد ان تمام روحوں کو بھی پیدا فرمایا جو ان کی پشت سے تاقیامت پیدا ہونے والی تھیں۔ عہد الست اسی دور سے متعلق ہے۔ (٧: ١٧٢) اور یہ دور روح کی پیدائش سے لے کر اس کے شکم مادر میں جنین کے جسم میں داخل ہونے تک پھیلا ہوا ہے۔ [٥] دنیا میں امتحان اور آخرت میں نتائج :۔ گویا اللہ نے کائنات کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ انسان کی تخلیق سے پہلے ہی انسان کی بنیادی ضروریات زندگی کا سامان مہیا کردیا جائے۔ پھر انسان کو پیدا کیا اور اس کی موت و حیات کا سلسلہ قائم کیا اسے قوت ارادہ و اختیار اور عقل و تمیز عطا کی کہ دیکھا جائے کہ کون کائنات کی دوسری اشیاء کی طرح اللہ کے حکم کے سامنے سرِتسلیم خم کرتا ہے اور کون نہیں کرتا۔ اگر سرتسلیم خم کرلے تو یہی اس کے لیے بہتر روش ہے اور اس کے اعمال اچھے ہوں گے اور انکار کی صورت میں اس کے اعمال بھی برے اور بدلہ بھی برا ملے گا۔ گویا یہ دنیا ہر انسان کے لیے دارالامتحان ہے اور اس امتحان کا وقت انسان کی موت تک ہے۔ موت سے لے کر بعث بعدالموت تک کا عرصہ امتحان کے نتائج کے انتظار کا عرصہ ہے۔ تاہم ہر ایک کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس امتحان میں فیل ہونے والا ہے یا پاس اور اسی کے مطابق اسے اس عرصہ میں کوفت یا راحت بھی پہنچتی رہتی ہے اور قیامت کو اس امتحان کے نتائج کا باقاعدہ اعلان ہوگا۔ نمبر نہایت انصاف کے ساتھ دیئے جائیں گے۔ پھر ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق جزا و سزا بھی ملے گی۔