يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ
اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں [١٢] کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر [١٣] ہیں۔ اس پر تند خو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہیں۔ اللہ انہیں جو حکم دے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے [١٤] اور وہی کچھ کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔
[١٢] یعنی مسلمانوں کو محض اپنی ذات کی اصلاح پر ہی اکتفا نہ کرلینا چاہیے بلکہ اہل و عیال پر بھی اتنی ہی توجہ دینا چاہیے اور اپنے ساتھ اپنے گھر والوں کو بھی دین کی راہ پر چلانا چاہیے اور اس کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کرنا چاہئے۔ ڈرا کر سمجھا کر، پیار سے، دھمکی سے، مار سے جس طرح بھی بن پڑے۔ انہیں اس راہ پر لانے کی کوشش کرے۔ اس کی بہترین تفسیر وہ حدیث ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے ہر شخص راعی (نگہبان) ہے اور اس سے اس کی رعیت کے متعلق باز پرس ہوگی (کہ اس نے ان کی اصلاح کیوں نہ کی تھی) امام بھی راعی ہے، اسے اپنی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا۔ مرد اپنے گھر والوں کا راعی ہے، اسے اپنی رعیت سے متعلق پوچھا جائے گا، عورت اپنے خاوند کے گھر کی راعی ہے، اسے اس کے متعلق پوچھا جائے گا (بخاری۔ کتاب الوصایا۔ باب قولہ تعالیٰ من بعد وصیۃ۔۔) اس لحاظ سے ہر مسلمان پر یہ ذمہ داری ڈال دی گئی ہے کہ وہ اپنے ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی اصلاح کرے ورنہ اس سے باز پرس ہوگی۔ [١٣] پتھر سے مراد وہ پتھروں کے بت بھی ہیں جن کی مشرک دنیا میں پوجا کرتے رہے ہیں۔ تاکہ مشرکوں کی حسرت و یاس میں مزید اضافہ ہو اور پتھری کوئلہ بھی جس میں آگ کی حرارت کی شدت عام کوئلہ سے بدرجہا زیادہ ہوتی ہے اور گندھک اور گندھک ملے دوسرے تمام جمادات اور پتھروں کی قسم کے شعلہ گیر مادے بھی۔ جو آگ کی حرارت میں شدت پیدا کردیتے ہیں۔ [١٤] جہنم پر مقرر کردہ فرشتوں کی تین صفات مذکور ہوئیں ایک یہ کہ وہ سخت دل ہیں، انہیں کسی پر رحم نہیں آئے گا۔ دوسرے سخت گیر ہیں، جو عذاب دیں گے، پوری سختی اور قوت کے ساتھ دیں گے۔ تیسرے وہ دوزخیوں کی چیخ و پکار اور التجاؤں کا کوئی اثر قبول نہ کریں گے، بلکہ وہی کچھ کریں گے جو اللہ کی طرف سے انہیں حکم ملا ہوگا۔