مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ ۚ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
جو مصیبت بھی آتی ہے وہ اللہ کے اذن سے ہی آتی ہے اور جو شخص [١٨] اللہ پر ایمان لائے تو اللہ اس کے دل کو ہدایت بخشتا [١٩] ہے اور اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔
[١٨] اس آیت میں ان دنیادار لوگوں کے اس نظریہ کی تردید کی گئی ہے جو یہ سمجھتے تھے کہ اگر مسلمان حق پر ہوتے تو اس قدر مصائب میں کیوں گھرے ہوتے اور مسلمانوں کو یہ تسلی دی جارہی ہے کہ کوئی مصیبت کسی کے لانے سے نہیں آتی۔ بلکہ اللہ کے علم میں ہوتی ہے اور اسی کے اذن سے آتی ہے۔ اور اس میں اللہ تعالیٰ کی کئی حکمتیں ہوتی ہیں۔ مصیبتوں کے ذریعہ آزمائش سے مقصود تمہارے ایمان کا امتحان ہوتا ہے۔ تاکہ منافقین کھل کر سامنے آجائیں۔ اور تم ان سے محتاط رہنے لگو۔ ان کے علاوہ کئی حکمتیں قرآن میں جابجا مذکور ہیں۔ مصائب کی تین قسمیں :۔ واضح رہے کہ مصائب تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو لوگوں کے اپنے اعمال کے نتیجہ یا شامت اعمال کے طور پر آتے ہیں۔ جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿ظَھَرَ الْفَسَادُ فِیْ البَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أیْدِیْ النَّاسِ﴾دوسرے وہ مصائب جن میں سے ایمانداروں کو آزمائش اور تربیت کے لئے گزارا جاتا ہے۔ جیسے فرمایا :﴿وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ﴾ تیسرے وہ جن کا تعلق مندرجہ بالا دونوں اقسام سے نہیں ہوتا اور وہ محض اتفاقی قسم کے حوادث ہوتے ہیں۔ ایسے مصائب مومنوں کے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ بموجب ارشاد نبوی کسی مسلمان کو کوئی کانٹا بھی چبھے تو وہ اس کے کسی نہ کسی گناہ کا کفارہ بن جاتا ہے بشرطیکہ مسلمان اس مصیبت پر صبر کرے۔ [١٩] یعنی جو شخص ان مصائب میں ثابت قدم رہے تو اس کا اللہ پر ایمان مزید بڑھ جاتا ہے اور اسی نسبت سے اسے اللہ مزید ہدایت بخشتا ہے اور یاد رکھو کہ اللہ کو تمہارے ان مصائب کا پورا پورا علم ہے۔ وہ اپنے بندوں کو خواہ مخواہ مصائب میں مبتلا نہیں کرتا۔ بلکہ کسی عظیم مقصد کے لئے تمہیں تیار کرنا چاہتا ہے۔