يَقُولُونَ لَئِن رَّجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ ۚ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ
کہتے ہیں : اگر ہم مدینہ واپس گئے تو (وہاں کا) عزیز تر آدمی، ذلیل تر آدمی کو نکال باہر [١٣] کرے گا حالانکہ تمام تر عزت تو اللہ، اس کے رسول اور مومنوں کے لیے ہے لیکن منافق یہ بات جانتے نہیں۔
[١٣] عبداللہ بن ابی کو جھوٹ بولنے کی کیا سزا ملی؟ جھوٹی قسمیں کھا کر اپنے جرائم سے انکار کرنے کی سزا اس منافق کو ایک تو یہ ملی کہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اس کے نفاق اور کذب کا بھانڈا پھوڑ دیا اور اسے رسوا کیا۔ اور دوسری سزا یہ ملی کہ خود اس کا بیٹا عبداللہ جو سچا مومن تھا۔ مدینہ کے دروازہ پر تلوار سونت کر کھڑا ہوگیا۔ اور اپنے باپ کی راہ روک کر کہنے لگا کہ جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت نہ دیں تم مدینہ میں داخل نہیں ہوسکتے کیونکہ معزز ترین تو اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور ذلیل ترین تم ہو۔ کچھ دیر بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پہنچے جہاں بیٹا باپ کا راستہ روکے کھڑا تھا، آپ نے از راہ کرم عبداللہ بن ابی کو مدینہ میں داخل ہونے کی اجازت دے دی۔ تب جاکر بیٹے نے باپ کا راستہ چھوڑا۔ اس وقت اس منافق کو یہ بات معلوم ہوئی جسے وہ نہیں جانتا تھا کہ تمام تر عزت تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کے لیے ہے اور ان کے مقابلہ میں وہی ذلیل ترین آدمی ہے۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن ابی کے قتل کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کی اجازت نہ دی اور اس کی وجہ محض شماتت اعداء تھی۔ ورنہ اس کے جرائم اس قابل تھے کہ اسے قتل کرکے اس مجسم فتنہ سے زمین کو پاک کردیا جاتا اور صحابہ میں ایسی چہ میگوئیاں ہونے بھی لگیں تو عبداللہ بن ابی کے بیٹے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ میرے باپ کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں تو مجھے حکم فرمائیے میں اس کا سر آپ کی خدمت میں پیش کردوں گا۔ اگر اسے کسی اور نے قتل کیا تو مبادا میری رگ حمیت بھڑک اٹھے‘‘ (ابن ہشام، ١٢: ٢٩٠ تا ٢٩٢)