قُلْ إِنَّ الْمَوْتَ الَّذِي تَفِرُّونَ مِنْهُ فَإِنَّهُ مُلَاقِيكُمْ ۖ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَىٰ عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
آپ ان سے کہیے : جس موت سے تم بھاگتے ہو وہ تو تمہیں آکے رہے [١٣] گی پھر تم اس کے ہاں لوٹائے جاؤ گے جو غائب اور حاضر کا جاننے والا ہے اور وہ تمہیں بتادے گا کہ تم کیا کچھ کرتے رہے؟
[١٣] یہود کا دنیا کی ذلت کی زندگی سے پیار اور سب یہودی قبائل کا لڑنے کی بجائے قلعہ بند ہونا :۔ ان کی دنیا کی زندگی سے محبت اور موت سے فرار کا یہ حال ہے کہ ذلیل سے ذلیل تر زندگی کو بھی موت پر ترجیح دیتے ہیں۔ اسی زندگی کی حرص نے انہیں مال و دولت، سازو سامان، اسلحہ اور سامان رسد کی فراوانی کے باوجود ایک بزدل قوم بنا دیا تھا۔ شیخیاں بگھارنے میں بڑے ہوشیار اور تیز طرار، مگر مقابلے میں انتہائی ڈرپوک، اسی وجہ سے یہودیوں کے تینوں قبیلوں میں سے کسی نے بھی مسلمانوں سے میدان میں آکر جنگ نہیں کی۔ بنو قینقاع بھی قلعہ بند ہوئے۔ بنونضیر بھی اور بنو قریظہ بھی۔ کیونکہ یہود موت سے ڈرتے تھے جبکہ مسلمان موت سے بہت محبت رکھتے تھے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس موت سے تم بہرصورت بچنا چاہتے ہو وہ تو تمہیں آکے رہے گی۔ اور تمہیں اللہ کے حضور پیش بھی ہونا ہی پڑے گا۔ پھر وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم اللہ کے چہیتے اور لاڈلے تھے یا اس کی لعنت اور اس کے غصہ میں گرفتار تھے۔