يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ قَدْ يَئِسُوا مِنَ الْآخِرَةِ كَمَا يَئِسَ الْكُفَّارُ مِنْ أَصْحَابِ الْقُبُورِ
اے ایمان والو! ایسے لوگوں کو دوست نہ بناؤ جن پر اللہ کا غضب [٣٠] ہوا، وہ تو آخرت سے ایسے ہی مایوس ہیں جیسے کافر اہل قبور [٣١] سے مایوس ہیں۔
[٣٠] سورۃ کے آخر میں ایک دفعہ پھر تاکید مزید کے طور پر اسی بات کو دہرایا گیا ہے کہ معاند قسم کے کافر کبھی تمہارے خیر خواہ نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا ان سے دوستی کی پینگیں مت بڑھاؤ۔ نہ ہی ان پر اعتماد کرو۔ جن پر اللہ ناراض ہے۔ اللہ کے دوستوں کو ان سے ناراض ہی رہنا چاہئے۔ [٣١] اصحاب قبور سے کافروں کی مایوسی کی مختلف توجہیات :۔ اس جملہ کے دو مختلف مطلب صحابہ سے منقول ہیں۔ ایک یہ کہ کافروں کا نہ آخرت پر ایمان ہے، نہ ہی قبروں سے مردوں کے دوبارہ جی اٹھنے پر۔ وہ آخرت میں جزاء و سزائے اعمال کی ویسے ہی توقع نہیں رکھتے جیسے مردوں کے قبروں سے جی اٹھنے کی توقع نہیں رکھتے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جو کافر قبروں میں پہنچ چکے ہیں حقیقت حال ان کے سامنے کھل کر آچکی ہے اور آخرت میں اللہ کی رحمت اور مہربانی سے ایسے ہی مایوس ہوچکے ہیں۔ جیسے کہ یہ کافر آخرت کے قیام سے ہی مایوس ہیں۔ یہ دونوں مطلب درست ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ بعض لوگوں نے، جو قبروں میں پڑے ہوئے اولیاء اللہ کے تصرفات کے قائل ہیں، ایک تیسرا مطلب بھی کشید کرلیا ہے جو یہ ہے کہ اہل قبور کے تصرفات سے جو لوگ مایوس ہیں اور اس بات کا یقین نہیں رکھتے وہ کافر ہیں۔ گویا اہل قبور کے تصرفات کو تسلیم نہ کرنا کافروں کا کام ہے۔ (نعوذ باللہ من شرور انفسا)