قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّىٰ تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ إِلَّا قَوْلَ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَا أَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللَّهِ مِن شَيْءٍ ۖ رَّبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ
تمہارے لئے ابراہیم اور اس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ [٨] ہے۔ جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا کہ :’’ہم تم سے قطعی بیزار ہیں اور ان سے بھی جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پوجتے ہو۔ ہم تمہارے (دین کے) منکر ہیں۔ اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دشمنی اور بیر پیدا ہوچکا تاآنکہ تم اللہ اکیلے پر ایمان لے آؤ‘‘ مگر ابراہیم [٩] کا اپنے باپ سے یہ کہنا : (اس سے مستثنیٰ ہے) کہ میں تیرے لئے (اللہ سے) معافی کی درخواست کروں گا حالانکہ میں تیرے لیے اللہ کے سامنے کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا [١٠]۔’’اے ہمارے پروردگار! ہم نے تجھی پر بھروسہ کیا اور تیری طرف ہی رجوع [١١] کیا اور تیری ہی طرف ہمیں لوٹنا ہے۔‘‘
[٨] سیدنا ابراہیم اور ان کے ساتھیوں کا اپنی قوم کو دو ٹوک جواب تمہارے لئے نمونہ ہے :۔ تم سے پہلے تمہارے لیے ایک اچھی مثال موجود ہے اور وہ تمہارے لیے قابل تقلید ہے۔ جس طرح تم اللہ کے رسول پر ایمان لائے ہو، اسی طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر بھی کچھ لوگ ایمان لائے تھے۔ جوں جوں وہ ایمان لاکر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ملتے گئے۔ اپنی قوم اور اپنے گھر والوں سے بیزار ہوتے گئے اور انہوں نے واضح طور پر اپنی قوم اور اپنے تعلق داروں سے کہہ دیا تھا کہ ہمارے اور تمہارے درمیان اب کوئی تعلق نہیں رہا، نہ رشتہ داری کا نہ دوستی کا۔ بلکہ اس کے بجائے ہم تمہارے دشمن ہیں۔ اور ہماری یہ دشمنی تم سے اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک تم شرک سے دستبردار ہو کر اللہ اکیلے پر ایمان نہ لے آؤ۔ عبادت کرو تو صرف اسی کی کرو۔ دعا کرو تو اسی سے کرو۔ اپنی حاجت روائیوں اور مشکل کشائیوں کے لیے اسی کو پکارو اور اپنے بتوں سے کچھ توقع نہ رکھو۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کے پیروکاروں نے تو برملا یہ کہہ دیا تھا اور تم لوگ مشرکوں کو خفیہ خط لکھ کر ان سے دوستی گانٹھتے ہو؟ [٩] باپ کے حق میں دعائے مغفرت پھر رجوع :۔ آپ لوگوں کے لیے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سب باتیں قابل تقلید ہیں مگر یہ بات قابل تقلید نہیں جو انہوں نے اپنے مشرک باپ کے حق میں اللہ سے مغفرت کی دعا کی تھی۔ ہوا یہ تھا کہ جب باپ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اپنے گھر سے نکال دیا تھا تو اس وقت سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ سے دعائے مغفرت کا وعدہ کیا تھا۔ (١٦: ١٤٧) اسی وعدہ کو پورا کرنے کی غرض سے آپ نے دو بار اپنے باپ کے حق میں دعائے مغفرت کی بھی تھی۔ پہلی بار کی دعا کا ذکر سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر ٤١ میں ہے اور دوسری بار کی دعا کا ذکر سورۃ الشعراء کی آیت نمبر ٨٦ میں ہے۔ پھر جب آپ کو پوری طرح معلوم ہوگیا کہ باپ شرک سے دستبردار ہونے کو قطعاً تیار نہیں۔ اور مشرک کی معافی کی اللہ کے ہاں کوئی صورت نہیں تو آپ نے اپنے اس قول اور وعدہ سے رجوع کرلیا اور اس کے حق میں دعائے مغفرت کرنا چھوڑ دی۔ ضمناً اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ انبیاء کا آخری عمل قابل تقلید ہوتا ہے :۔ ایک یہ کہ انبیاء کا کوئی عمل جو ان کی زندگی میں مختلف رہا ہو، قابل تقلید وہ صورت ہوتی ہے جو ان کی آخری زندگی میں ہو۔ اور پہلی صورت سے انہوں نے خود رجوع کرلیا ہو یا بذریعہ وحی اس کی اصلاح کردی گئی ہو اور شریعت میں اس کی ممانعت وارد ہوچکی ہو۔ مشرک کے لئے دعائے مغفرت بھی جائز نہیں :۔ اور دوسری یہ کہ اہل ایمان کا مشرکوں سے اتنا تعلق بھی نہ ہونا چاہئے کہ وہ ان کے حق میں دعائے مغفرت ہی کردیں۔ خواہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ [١٠] یعنی میں تیرے لیے صرف دعائے مغفرت ہی کرسکتا ہوں۔ آگے اللہ تمہیں بخشے یا نہ بخشے یہ اللہ کے اختیار میں ہے۔ میرے اختیار میں کچھ نہیں۔ [١١] یہ ہے وہ دعا اور عمل جس پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھی عمل پیرا ہوئے تھے۔ اور اس کی تمہیں تقلید کرنا چاہیے۔