كَمَثَلِ الشَّيْطَانِ إِذْ قَالَ لِلْإِنسَانِ اكْفُرْ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ إِنِّي بَرِيءٌ مِّنكَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ
ان (منافقوں) کی مثال شیطان جیسی ہے کہ وہ انسان [٢٢] سے کہتا ہے کہ کفر کر۔ پھر جب وہ کفر کر بیٹھتا ہے تو کہتا ہے کہ میں تجھ سے بری الذمہ ہوں میں تو اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔
[٢٢] شیطان کا طریقہ واردات :۔ شیطان کا طریقہ واردات یہ ہے کہ وہ انسان کو کئی طرح کے سبزباغ دکھا کر اسے اپنے دام تزویر میں پھنسا لیتا ہے۔ پھر جب انسان شیطانی جال میں پھنس کر اس کا آلہ کار اور ایجنٹ بن جاتا ہے تو شیطان نیا شکار تلاش کرنے لگتا ہے۔ اور پہلے کی طرف سے مطمئن اور بے نیاز ہوجاتا ہے۔ اس کی دوسری توجیہ یہ ہے کہ شیطان قیامت کے دن اپنے پیروکاروں کے سامنے ایسی ہی تقریر کرکے خود صاف طور پر بری الذمہ ہونے کی کوشش کرے گا۔ اور اس کی عملی شکل میدان بدر میں پیش آئی۔ جب شیطان میدان بدر میں بنوکنانہ کے رئیس سراقہ بن مالک کی شکل دھار کر نمودار ہوا اور کافروں کو اکسانے اور فتح کی یقین دہانی کرانے لگا۔ پھر جب اس نے اس میدان میں فرشتوں کو مسلمانوں کی مدد کے لیے اترتے دیکھا تو چپکے سے وہاں سے کھسکنے لگا۔ اور اس کی تفصیل سورۃ انفال کی آیت نمبر ٤٨ کے تحت گزر چکی ہے۔ جنگ بدر میں شیطان کی آمد اور فرار :۔ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ منافقوں نے بھی یہود بنونضیر سے شیطان کا سا ہاتھ کھیلا۔ انہیں جھوٹے وعدے اور امداد کی جھوٹی تسلیاں دیتے رہے۔ پھر جب بنونضیر نے منافقوں کے ان وعدوں اور انگیخت پر سرکشی اختیار کی اور ان کا محاصرہ ہوگیا تو منافق بڑے اطمینان سے اپنے وعدوں سے دامن جھاڑ کر ان کا تماشہ دیکھتے رہے۔