وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اور ان (یہودیوں کے اموال) سے جو کچھ اللہ نے ان سے اپنے رسول کو مفت میں دلا دیا جس کے لیے نہ تم نے گھوڑے دوڑائے [٦] تھے اور نہ اونٹ (اس میں تمہارا کوئی حق نہیں) بلکہ اللہ ہی اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
[٦] اموال فے میں مجاہدین کا حصہ کچھ نہیں :۔ اموال غنیمت میں سے پانچواں حصہ خالصتاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مختص ہوتا تھا جسے آپ اپنی ذات، اپنے گھر والوں رشتہ داروں اور دوسروں میں اپنی صوابدید کے مطابق خرچ کرتے تھے۔ لیکن جو اموال جنگ کئے بغیر ہی دستیاب ہوجائیں جنہیں اموال فے کہا جاتا ہے، وہ سارے کے سارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحویل میں دیئے جاتے تھے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بنی نضیر کے مال ان اموال میں سے تھے جو اللہ نے لڑائی کے بغیر اپنے پیغمبر کو دلا دیئے۔ مسلمانوں نے ان پر گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے تھے۔ اس قسم کے مال خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گنے جاتے تھے۔ ایسے اموال سے آپ اپنے گھر والوں کا سال بھر کا خرچ نکال لیتے تھے اور باقی مال جہاد کے سامان کی تیاری اور گھوڑوں (وغیرہ) میں خرچ کرتے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) واضح رہے کہ اس آیت میں افاء کا لفظ آیا ہے۔ فَاءَ (مادہ فئی) کا لغوی معنی بہتری یا اچھی حالت کی طرف لوٹنا یا واپس آنا ہے۔ اور افاء کے معنی لوٹا دینا ہے۔ اور اس میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ اللہ کے باغی اور نافرمان اپنے اموال کے حقدار نہیں ہوتے اور اللہ نے یہ اموال اپنے نافرمانوں سے چھین کر اپنے فرمانبرداروں کو پلٹا دیئے ہیں۔