لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ ۚ أُولَٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ ۖ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ أُولَٰئِكَ حِزْبُ اللَّهِ ۚ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
جو لوگ اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہیں۔ آپ کبھی انہیں ایسا نہ پائیں گے کہ وہ ایسے لوگوں سے دوستی لگائیں جو اللہ اور اس کے رسول کی [٢٦] مخالفت کرتے ہوں، خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا بیٹے ہوں یا بھائی یا کنبہ والے ہوں، یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں [٢٧] اللہ نے ایمان ثبت کردیا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح [٢٨] کے ذریعہ انہیں قوت بخشی ہے۔ اللہ انہیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی [٢٩] ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوئے یہی اللہ کی پارٹی ہے۔ سن لو! اللہ کی پارٹی کے لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں۔
[٢٦] کافروں سے دوستی رکھنا بھی کفر ہے :۔ یعنی اللہ اور آخرت پر ایمان کا دعویٰ اور اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت دو متضاد باتیں ہیں جو ایک دل میں کبھی جمع نہیں ہوسکتیں جیسے دن اور رات یا روشنی اور تاریکی ایک ہی وقت میں جمع نہیں ہوسکتے۔ لیکن منافقوں کی فریب کاری یہ ہے کہ وہ دونوں کام بیک وقت کر رہے ہیں۔ ان دونوں میں سے ایک ہی بات درست ہوسکتی ہے۔ اگر وہ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں تو وہ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے دوستی رکھ ہی نہیں سکتے۔ اور اگر دوستی رکھتے ہیں تو کبھی ایماندار نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ اصول یہ ہے کہ دشمن کا دوست بھی دشمن ہی ہوتا ہے۔ پھر اللہ کے دشمنوں سے ایک ایماندار کیسے دوستی رکھ سکتا ہے؟ [٢٧] جنگ کے دوران کافر اقرباء سے مسلمانوں کا سلوک :۔ یہ آیت ان صحابہ کی شان میں نازل ہوئی جنہوں نے اللہ کے اس ارشاد پر عمل کرکے دنیا کے سامنے اس کا عملی نمونہ پیش کیا تھا۔ غزوہ احد میں سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ نے اپنے بھائی عبید بن عمیر کو قتل کیا۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ 'سیدنا حمزہ اور عبیدہ بن الحارث نے علی الترتیب عتبہ، شیبہ اور ولید بن عتبہ کو قتل کیا۔ ایک دفعہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبدالرحمن رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے کہنے لگے کہ ابا جان! آپ جنگ میں عین میری تلوار کی زد میں تھے مگر میں نے باپ سمجھ کر چھوڑ دیا تھا۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : بیٹا اگر تم میری تلوار کی زد میں آجاتے تو میں تمہیں کبھی نہ چھوڑتا۔ غزوہ احد کے قیدیوں کے متعلق مشورہ ہوا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ مشورہ دیا کہ ہر آدمی اپنے قریبی رشتہ دار کو قتل کرکے موت کے گھاٹ اتار دے۔ غزوہ بنی مصطلق سے واپسی پر عبداللہ بن ابی منافق نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ناجائز کلمات کہے تو ان کے بیٹے جن کا نام بھی عبداللہ ہی تھا اور سچے مومن تھے، آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے۔ اگر آپ حکم فرمائیں تو میں اپنے باپ کا سر کاٹ کر آپ کے قدموں میں لا رکھوں۔ لیکن آپ نے اپنی طبعی رحم دلی کی بنا پر عبداللہ کو ایسا کرنے سے منع فرما دیا۔ غرضیکہ سچے ایمانداروں کی تو شان ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے مقابلہ میں کسی قریبی سے قریبی رشتہ دار حتیٰ کہ اپنی جان تک کی پروا نہیں کرتے۔ [٢٨] یعنی ایسے لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے روح پھونک کر ان کی قوت ایمانی کو کئی گنا زیادہ طاقتور بنا دیا ہے۔ نیز روح سے مراد روح القدس یا جبریل علیہ السلام بھی ہوسکتے ہیں جو صرف جنگ کے دوران ہی نازل ہو کر مسلمانوں کی قوت ایمانی کو نہیں بڑھاتے بلکہ کوئی بھی اہم معاملہ ہو تو مومنوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی تائید حاصل ہوجاتی ہے۔ کفار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی تو سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اس ہجو کا جواب دیا۔ سیدنا حسان رضی اللہ عنہ کے یہ اشعار سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مشرکوں کی ہجو کر' جبریل علیہ السلام تیرے ساتھ ہیں۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب مرجع النبی من الاحزاب۔۔) اور مسلم کے الفاظ یہ ہیں :’’یا اللہ! حسان کی روح القدس سے مدد فرما‘‘ (مسلم۔ کتاب الفضائل۔ باب فضائل حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ) [٢٩] صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد قرآن میں بعض دیگر مقامات پر بھی مذکور ہے۔ جس سے ان کی انتہائی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ اس کے باوجود جو لوگ ان کے ایمان میں شک کرتے ہیں یا انکار کرتے ہیں۔ انہیں اپنے ایمان کی خیر منانی چاہیے۔