أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۖ مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَىٰ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا ۖ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا عَمِلُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
کیا آپ دیکھتے نہیں کہ جو کچھ بھی آسمانوں اور زمین میں موجود ہے اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ تین آدمیوں میں مشورہ ہو تو چوتھا وہ (اللہ) نہ ہو یا پانچ آدمیوں میں مشورہ ہو تو ان کا چھٹا وہ نہ ہو۔ (مشورہ کرنے والے) اس سے کم ہوں یا زیادہ، وہ یقیناً ان کے ساتھ [٨] ہوتا ہے خواہ وہ کہیں بھی ہوں۔ پھر وہ قیامت کے دن انہیں بتا (بھی) دے گا جو کچھ وہ کرتے رہے۔ بلاشبہ اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
[٨] مشورہ اور مشیروں کی تعداد اور جمہوریت پسند :۔ اس آیت سے دراصل سمجھانا یہ مقصود ہے کہ انسان کسی وقت اور کسی حال میں بھی اللہ سے چھپ نہیں سکتا۔ اور اگر وہ کوئی بات کرے تو وہ اسے بھی سن رہا ہوتا ہے۔ لہٰذا انسان کو گناہ کے کاموں اور گناہ کی باتوں سے ہر حال میں پرہیز کرنا چاہیے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تین اور پانچ یعنی طاق اعداد کا ذکر کیا ہے۔ دو اور چار وغیرہ جفت اعداد کا ذکر نہیں کیا۔ اس سے بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ مشورہ طاق لوگوں سے لینا چاہیے۔ ایک سے تو مشورہ کیا یا لیا نہیں جاسکتا اور دو مشورہ کرنے والوں میں اگر اختلاف ہوجائے تو کچھ فیصلہ نہ ہوسکے گا۔ اور اگر تین ہوں اور دو کی رائے ایک طرف ہو تو ان کی رائے ایک سے زیادہ معتبر ہوگی اور اس سے آگے انہوں نے کثرت رائے کے مطابق فیصلہ کے اصول کو درست ثابت کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ یہ دلیل کئی لحاظ سے غلط ہے۔ ایک یہ کہ نَجْوٰی کا معنی کانا پھوسی، سرگوشی اور راز کی باتیں ایک دوسرے کو کہنا یا بتانا ہوتا ہے۔ اور یہ لفظ اکثر برے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ الا یہ کہ کوئی قرینہ موجود ہو اور یہ کانا پھوسی دو آدمیوں میں بھی ہوسکتی ہے۔ تین میں بھی اور چار میں بھی۔ دوسرے یہ کہ آیت کے الفاظ ﴿وَلَآ اَدْنٰی مِنْ ذٰلِکَ وَلَآ اَکْثَرَ ﴾ ان لوگوں کی اس دلیل کو باطل کردیتے ہیں۔ تین سے ادنیٰ دو ہے اور اکثر چار۔ پانچ سے ادنیٰ چار ہے اور اکثر چھ۔ علی ہذا القیاس تیسرے یہ کہ صرف طاق اعداد کا ذکر اہل عرب کے رواج اور حسن کلام سے تعلق رکھتا ہے اس کا مشیروں کی تعداد سے کچھ تعلق نہیں ہوتا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جہاں اصحاب کہف کی تعداد کا ذکر فرمایا تو وہاں بھی تین، پانچ یا سات کا ہی ذکر فرمایا۔ حالانکہ وہاں کوئی ایسا معاملہ نہیں جو مشورہ سے تعلق رکھتا ہو۔