ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَىٰ آثَارِهِم بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا ۖ فَآتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ ۖ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ
پھر ان دونوں کے بعد ہم نے لگاتار کئی رسول بھیجے۔ اور ان کے بعد عیسیٰ بن مریم کو بھیجا اور اسے انجیل عطا کی اور جن لوگوں نے عیسیٰ کی پیروی کی ان کے دلوں میں ہم نے نرم دلی اور رحم ڈال [٤٥] دیا۔ اور ترک دنیا [٤٦] جو انہوں نے خود ایجاد کرلی تھی [٤٧]، ہم نے ان پر فرض نہیں کی تھی۔ مگر اللہ کی رضا حاصل کرنے [٤٨] کی خاطر انہوں نے ایسا کر تو لیا مگر اسے نباہ نہ سکے جیسا کہ اسے نباہنے [٤٩] کا حق تھا۔ ان میں سے جو لوگ ایمان لائے تھے ہم نے ان کا اجر انہیں دے دیا مگر ان میں سے زیادہ تر نافرمان [٥٠] ہی تھے۔
[٤٥] رأفۃ کا لغوی مفہوم :۔ رأفۃ کا معنی ہے کسی کو تکلیف میں دیکھ کر دل پسیج جانا، دل بھر آنا۔ رقیق القلب ہونا، رقت طاری ہوجانا اور رحمت کے معنی اس تکلیف کو دور کرنے میں مدد کرنا۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام چونکہ خود رقیق القلب اور نرم دل تھے۔ ساری عمر نرم برتاؤ اور ایک دوسرے سے پیار و محبت سے رہنے کا سبق دیتے رہے لہٰذا آپ کی امت یعنی نصاریٰ میں بھی دو صفات سرایت کرگئی تھیں۔ [٤٦] رھبانیت کا مفہوم :۔ رَھْبَانِیّۃَ۔ راھب ایسے خوف کو کہتے ہیں جس میں اضطراب اور احتیاط بھی شامل ہو۔ (ضد رغب) اور یہ خوف وقتی اور عارضی قسم کا نہ ہو بلکہ طویل اور مسلسل ہو۔ اور رہبانیت یا رہبانیت بمعنی مسلک خوف زدگی۔ یعنی کسی طویل اور مسلسل بے چینی رکھنے والے خوف کی وجہ سے لذات دنیا کو چھوڑ کر گوشہ نشینی اختیار کرلینا۔ آبادی سے باہر کسی جنگل وغیرہ میں کٹیا یا جھونپڑی ڈال کر عبادت الہٰی یا گیان دھیان میں مصروف ہوجانا۔ اور راہب بمعنی گوشہ نشین، درویش، بھکشو، جمع رہبان۔ اب سوال یہ ہے کہ ان نصاریٰ نے کس بات کے خوف سے ڈر کر یہ مسلک اختیار کیا تھا ؟ بعض مفسرین یہ کہتے ہیں کہ بےدین بادشاہوں سے ڈر کر ان لوگوں نے اپنے ایمان کو محفوظ رکھنے کے لیے یہ راہ نکالی تھی۔ اور بعض کہتے ہیں کہ جب عقیدہ تثلیث سرکاری مذہب بن گیا اور اس عقیدہ کو تسلیم نہ کرنے والوں پر سختیاں ہونے لگیں تو یہ لوگ چونکہ موحد تھے اس لیے انہوں نے یہ راستہ اختیار کرلیا تاکہ لوگوں کے مظالم سے بچ سکیں۔ ممکن ہے یہ باتیں بھی کسی حد تک درست ہوں تاہم اس رہبانیت کے کچھ دوسرے اسباب بھی ہیں۔ اس لیے اگر مفسرین کے ان اقوال کو درست تسلیم کرلیا جائے تو رہبانیت کا وجود صرف نصاریٰ تک ہی محدود رہنا چاہئے تھا۔ حالانکہ یہ مسلک نصاریٰ کے علاوہ یہود، مسلمان، ہندؤوں اور سکھوں وغیرہ سب میں پایا جاتا ہے اور اسے ایک آفاقی مذہب سمجھا جاتا ہے اور مسلمانوں میں یہ مذہب دین طریقت کے نام سے موسوم ہے۔ [٤٧] رھبانیت ایک بدعت ہے :۔ اس جملہ سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ نصاریٰ نے یہ ایک بدعت ایجاد کرلی تھی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسا مسلک اختیار کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ اور دوسری یہ کہ چونکہ تمام انبیاء علیہم السلام کی بنیادی تعلیم ایک ہی جیسی رہی ہے۔ لہٰذا رہبانیت کی کسی دین میں بھی گنجائش نہیں۔ اور یہ بدعت ہی شمار ہوگی۔ ضمناً اس سے بدعت کی تعریف بھی معلوم ہوگئی۔ یعنی بدعت ہر وہ کام ہے جسے دینی اور ثواب کا کام سمجھ کر دین میں شامل کرلیا جائے جبکہ شریعت میں اس کی کوئی اصل موجود نہ ہو۔ [٤٨] بدعت ہمیشہ نیکی کا کام سمجھ کی شروع کی جاتی ہے :۔ اس جملہ کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ ہم نے ان پر ایسے کام فرض کیے تھے جن سے اللہ کی خوشنودی حاصل ہو اور یہ کام ایسا نہ تھا جو انہوں نے شروع کردیا اور دوسرا یہ کہ انہوں نے یہ مسلک بھی اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر ہی ایجاد کرلیا تھا۔ واضح رہے کہ جتنے بھی بدعی کام شروع کیے جاتے رہے ہیں وہ ہمیشہ نیک آرزوؤں اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کی خاطر ہی شروع کئے جاتے رہے ہیں اور یہی شیطان کا فریب ہوتا ہے جسے اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔ [٤٩] دین طریقت اور چہار ترک :۔ جس مسلک کے اختیار کرنے والوں نے اپنے لیے جو ضابطے مقرر کیے تھے اور جو پابندیاں اپنے آپ پر لگائی تھیں انہیں وہ خود بھی نبھا نہ سکے۔ کیونکہ وہ پابندیاں انسان کی فطرت کے خلاف تھیں۔ ان پابندیوں کو وہ مختصر الفاظ میں چہار ترک (چارقسم کی چیزوں کو چھوڑ دینا) کا نام دیتے ہیں۔ (١) ترک دنیا یعنی دنیا کی تمام تر لذات کو چھوڑ دینا، (٢) ترک عقبیٰ یعنی آخرت کی جزاء و سزا سے بے نیاز ہوجانا، (٣) ترک اکل و نوم۔ یعنی کھانا، پینا چھوڑ دینا یا کم سے کم سے کھانا اسی طرح نیند یا آرام کرنا بھی چھوڑ دینا، اور (٤) ترک خواہش نفس۔ یعنی جو کچھ انسان کا جی چاہے اس کے برعکس کام کرنا۔ مختلف طریقوں سے جسم کی تعذیب :۔ ان لوگوں کا نظریہ تھا کہ روحانیت کے راستے میں حائل سنگ گراں ہمارا مادی جسم ہے۔ لہٰذا اس جسم کو مضمحل اور کمزور بنانے کے لیے طرح طرح کے عذاب دیئے جانے لگے۔ کم سے کم کھانا پینا جس سے صرف روح اور جسم کا تعلق باقی رہ سکے۔ کم سے کم سونا۔ دنیوی لذات جن سے فائدہ اٹھانے کا اللہ تعالیٰ نے انہیں حق دیا تھا، اس سے کنارہ کشی کرنا، شدید سردی میں ننگے بدن باہر رات گزارنا، کہیں شدید گرمی میں کسی ایک ہی جگہ کھڑے رہنا، چپ کا روزہ رکھنا، کیچڑ میں پڑے رہنا اور اس طرح کی کئی دوسری صورتیں انہوں نے ایجاد کرلی تھی۔ گویا اپنی جان سے دشمنی ان کا پہلا اصول تھا۔ لہٰذا جسم کی تعذیب اور ان کے تقاضوں کی تکذیب کے ذریعہ وہ اپنے جسم کو تحلیل کرنے میں مصروف ہوگئے۔ اقرباء سے پرہیز :۔ ان کا دوسرا اقدام دنیا والوں سے قطع تعلق تھا۔ ان کے خیال کے مطابق ان کے رشتہ دار اور دوسرے معاشرتی تعلقات رکھنے والے دوست احباب بھی اس راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ تھے۔ دنیوی علائق میں سے ان کو سب سے زیادہ دشمنی عورت سے تھی۔ تاریخ میں ہمیں ایسے دلدوز واقعات بھی ملتے ہیں کہ کوئی مامتا ماری ماں اپنے ایسے ہی بیٹوں کو جنگل میں دیکھنے گئی لیکن ان راہبوں نے اپنی ماں سے ملاقات کرنے سے انکار کردیا۔ وہ انہیں صرف ایک نظر دیکھنے اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کے لیے ترستی اور التجائیں کرتی رہی لیکن ان سنگ دل راہبوں نے اس کی التجا کو ذرہ بھر وقعت نہ دی اور اسے ناکام واپس آنا پڑا۔ واقعہ جریج :۔ ایسے ہی ایک راہب ابن جریج کا واقعہ بخاری اور مسلم میں مذکور ہے۔ ابن جریج نے جنگل میں کٹیا بنا رکھی تھی۔ مامتا ماری ماں اسے ملنے آئی اور اسے پکارا۔ وہ عبادت میں مصروف تھا۔ ماں کی آواز سن کر اور اسے پہچان کر بھی وہ اپنی عبادت میں مصروف رہا اور ماں کی پکار کو کوئی اہمیت نہ دی۔ دوسرے دن پھر اس کی ماں آئی۔ پھر اس نے کوئی توجہ نہ دی۔ تیسرے دن پھر ایسا ہی واقعہ ہوا تو ماں کو اس بات کا اتنا صدمہ ہوا کہ اس کے منہ سے اپنے اس درویش بیٹے کے حق میں بے اختیار یہ بددعا نکل گئی کہ الٰہی جب تک میرا یہ بیٹا کسی فاحشہ عورت کا منہ نہ دیکھ لے اسے موت نہ آئے۔ دکھیاری ماں کے منہ سے نکلی ہوئی بددعا بھلا رائیگاں کب جاسکتی تھی؟ ابن جریج اپنی عبادت اور خدا ترسی میں اتنا مشہور تھا کہ بنی اسرائیل کے اکثر لوگ اس سے حسد کرنے لگے تھے اور چاہتے تھے کہ ابن جریج پر کوئی ایسا الزام لگے جس سے اس کا یہ بلند مقام چھن جائے۔ اور اسی مقصد سے خفیہ مشورے بھی ہونے لگے۔ ایک بدنام زمانہ فاحشہ عورت نے، جو حسن و جمال میں اپنی نظیر نہیں رکھتی تھی، اس خدمت کو سرانجام دینے کا ذمہ لیا اور اسی غرض سے اپنے آپ کو ابن جریج پر پیش کردیا۔ جسے ابن جریج نے رد کردیا۔ اس پر یہ اپنے حسن و جمال پر ناز کرنے والی عورت سیخ پا ہوگئی اور اس بے اعتنائی اور ہتک کا انتقام لینے پر اتر آئی۔ اس نے اپنے آپ کو ایک چرواہے پر پیش کیا جس سے اسے حمل ہوگیا۔ جب بچہ پیدا ہوا تو اس نے یہ مشہور کردیا کہ یہ حمل ابن جریج راہب سے ہوا تھا۔ بس پھر کیا تھا۔ لوگ دوڑے آئے اور بلا تامل ابن جریج کو مارنا پیٹنا شروع کردیا اور اس کی کٹیا کو منہدم کردیا ابن جریج نے وجہ پوچھی تو لوگوں نے سارا ماجرا بتا دیا ابن جریج کہنے لگے۔ تھوڑی دیر ٹھہرو۔ لوگ رک گئے تو اس نے وضو کیا اور عبادت میں مشغول ہوا اور اللہ سے بصد گریہ و زاری اپنی بریت کی دعا کی۔ ماں کی بددعا تو قبول ہو ہی چکی تھی۔ اب اللہ نے اس پر رحم فرما کر اس کی بھی دعا قبول فرما لی۔ پھر جب وہ لوگوں کے پاس آیا تو وہ فاحشہ عورت بمعہ بچہ وہاں کھڑی تماشا دیکھ رہی تھی۔ ابن جریج نے اس بچہ کے پیٹ میں کچو کا دے کر پوچھا کہ بتا تیرا باپ کون ہے؟ بچہ قدرت الٰہی سے بول اٹھا :''فلاں چرواہا'' تب جاکر لوگوں نے ابن جریج کا پیچھا چھوڑا۔ ان میں سے بعض اس سے معافی مانگنے لگے اور کہنے لگے : اگر کہو تو تمہیں سونے کی کٹیابنا دیں۔ لیکن ابن جریج نے کہا : بس مجھے ویسی ہی مٹی کی کٹیا بنا دو (مسلم۔ کتاب البروالصلۃ، باب تقدیم برالوالدین) ماں کی گود میں کلام کرنے والے بچے :۔ اس طویل حدیث میں ان تین بچوں کا ذکر ہے جنہوں نے ماں کی گود میں کلام کیا۔ ایک سیدنا عیسیٰ علیہ السلام، دوسرے یہی ابن جریج سے منسوب بچہ اور اسی طرح ایک تیسرے بچے کا ذکر ہے۔ امام مسلم نے اس حدیث کو ’’والدین سے حسن سلوک‘‘ کے باب میں ذکر کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ شرعی احکام کے مقابلہ میں ایسی رہبانیت گناہ کبیرہ ہے حدیث میں اس مذکورہ واقعہ سے اس دور کے طریق رہبانیت پر پوری روشنی پڑتی ہے۔ نکاح سے پرہیز :۔ بیوی کا معاملہ اس سے بھی زیادہ نازک تھا کیونکہ نکاح اور اولاد سے انسان پر بہت سی معاشی اور معاشرتی ذمہ داریاں آپڑتی ہیں۔ لہٰذا یہ لوگ متاہل زندگی سے سخت نفرت کرتے تھے۔ گو اللہ نے انہیں ایسی رہبانیت کا حکم نہیں دیا تھا، تاہم انہیں اس کے جواز کے کچھ اشارے ضرور مل گئے۔ مثلاً سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی ٣٣ سالہ زندگی تبلیغ کے سلسلہ میں گھوم پھر کر ہی گزار دی اور نکاح نہیں کیا۔ عورتوں کا کنوارا رہنا اور بدکاری کو فروغ :۔ پھر عیسائیوں میں نکاح ثانی کی بھی گنجائش نہ تھی۔ پھر جس طرح ان راہبوں نے یہ مسلک اختیار کیا تھا کئی عورتوں نے بھی یہ سلسلہ اختیار کرلیا تھا اور ان کی الگ خانقاہیں قائم ہوگئیں اور انہوں نے ساری عمر کنواری رہنے کا عہد کر رکھا تھا مگر چونکہ یہ سب کام شریعت الٰہی کے خلاف اور فطرت کے خلاف تھے لہٰذا جلد ہی ایسی خانقاہیں بدکاری کے اڈوں میں تبدیل ہوگئیں۔ کئی حرامی بچے پیدا ہوتے ہی مار دیئے جاتے اور جو بچ جاتے انہیں کسی گرجا کی نذر کردیا جاتا تھا رہبانیت کی خرابی کا یہ صرف ایک پہلو ہے اور جو خرابیاں اس مسلک سے عام معاشرہ میں پیدا ہوئیں وہ یہ ہیں۔ ١۔ معاشرہ میں جو خدا ترس لوگ تھے وہ اپنی اس غلط روش کی بنا پر معاشرتی ذمہ داریوں اور دوسرے انسانی تعلقات سے ایک طرف ہوگئے جس سے اخلاق و تمدن، سیاست اور اجتماعیت کی جڑیں تک ہل گئیں۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت عیار اور ناخدا ترس لوگوں نے سنبھال لی۔ دنیا میں ''فساد فی الارض'' کا دور دورہ ہوگیا اور اللہ کے بھیجے ہوئے پیغام ہدایت اور ضابطہ حیات کی انہی بزرگان دین کے ہاتھوں بیخ کنی ہوئی۔ رہبانیت کے معاشرہ پر ناخوشگوار اثرات :۔ ٢۔ راہبوں کی اس روش کا دوسرا نتیجہ یہ نکلا کہ عام لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ دین اور دنیا دو الگ چیزیں ہیں۔ دین یا مذہب تو محض پوجا پاٹ اور گیان دھیان کا نام ہے اور مذہب کا تعلق بس اسی حد تک ہے۔ رہا دنیا کا کاروبار تو اس میں ہر شخص آزاد ہے۔ معاشرتی تعلقات یا ضابطہ اخلاق کی اگر کچھ اہمیت ہوتی تو یہ خدا رسیدہ لوگ اس سے کیوں منہ موڑ لیتے۔ پھر چونکہ ان راہبوں کی روش شریعت الٰہیہ کے برعکس تھی لہٰذا نتیجتاً مذہب کا شیرازہ پارہ پارہ ہوگیا۔ ٣۔ اللہ کے حضور عبادت، عاجزی، تذلل اور زہد و تقویٰ صفات محمودہ ہیں لیکن ان راہبوں نے ان صفات میں اس قدر غلو کیا اور انکار ذات اور خود شکنی اتنے جوش سے کی کہ خود نگری اور خود شناسی جو قومی زندگی کے لیے روح رواں ہے ایک جرم سمجھا جانے لگا۔ انسان کو اپنی انسانیت سے شرم آنے لگی اور وہ اپنی ترقی انسانیت میں نہیں بلکہ ترک انسانیت میں سمجھنے لگا۔ اللہ تعالیٰ نے تو اسے اشرف المخلوقات بنا کر باقی کائنات اس کے لیے مسخر کردی تھی مگر وہ خود اس قدر بے اعتماد، افسردہ اور شکستہ دل ہوگیا کہ حیوانات بلکہ جمادات کو اپنے آپ پر ترجیح دینے لگا۔ ٤۔ چوتھا اثر یہ ہوا کہ معاشرہ میں باقی لوگ جن میں دینداری اور تقویٰ کے کچھ بھی اثرات پائے جاتے تھے، انہوں نے بھی ان راہبوں اور پیروں فقیروں کے آستانوں کا رخ کرلیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ کے لیے مخصوص عبادت گاہیں اور مسجدیں تو آہستہ آہستہ ویران ہونے لگیں اور خانقاہوں، مزاروں اور آستانوں کی رونق بڑھنے لگی۔ انہی گونا گوں مفاسد کے پیش نظر شریعت نے رہبانیت کو مذموم قرار دیا ہے اس سلسلہ میں درج ذیل احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ملاحظہ فرمائیے :۔ ١۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم نے فرمایا اپنی جانوں پر سختی مت کرو کیونکہ ایک قوم نے اپنی جانوں پر سختی کی تو پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر سختی کی (یعنی ان کا ایجاد کردہ معیار ہی ان کی جانچ کے لیے مقرر کردیا) اس قوم کا بقایا گر جوں اور خانقاہوں میں ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت پڑھی۔ (ابوداؤد، کتاب الادب، باب الحسد) شرعی لحاظ سے رہبانیت مذموم ہے :۔ ٢۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’بلاشبہ دین آسان ہے کوئی شخص دین میں (اپنے آپ پر) سختی نہ کرے کہ وہ عمل اسے عاجز کردے۔ اس پر عمل ٹھیک طرح بجا لاؤ اور میانہ روی اختیار کرو اور خوش ہوجاؤ اور صبح و شام اور آخری رات کے کچھ حصہ میں اللہ سے مدد طلب کرتے رہو‘‘ (مشکوۃ، کتاب الصلوٰۃ۔ باب القصد فی العمل) ٣۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو کے باپ نے ان کی بڑے شوق اور چاؤ سے شادی کی۔ لیکن انہوں نے اپنی بیوی سے کوئی دلچسپی نہ رکھی۔ رات عبادت میں گزار دیتے اور دن روزہ رکھ کر۔ ان کے اس رویہ سے ان کی بیوی بھی ملول تھی اور باپ بھی۔ آخر باپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس صورت حال سے مطلع کیا۔ عبداللہ بن عمرو خود بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلا کر فرمایا : ’’مجھے خبر پہنچی ہے کہ تو روزے رکھے جاتا ہے اور افطار نہیں کرتا اور نماز پڑھے جاتا ہے ایسا کر کہ روزہ بھی رکھ اور افطار بھی کر، قیام بھی کر اور سو بھی۔ کیونکہ تیری آنکھوں کا تجھ پر حق ہے، تیری جان کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیری بیوی اور بال بچوں کا بھی تجھ پر حق ہے‘‘ میں نے عرض کیا : ’’مجھ میں اس سے زیادہ کی طاقت ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اچھا پھر داؤد جیسا روزہ رکھ‘‘ میں نے پوچھا : ''وہ کیا ہے؟ فرمایا : ’’وہ ایک دن روز رکھتے اور ایک دن چھوڑ دیتے تھے اور دشمن کے مقابلہ میں بھاگتے نہیں تھے‘‘ پھر آپ نے دوبارہ فرمایا :’’جس نے ہمیشہ روزہ رکھا، اس نے روزہ نہیں رکھا‘‘ (بخاری، کتاب الصوم، باب حق الاہل فی الصوم) یہ حدیث بخاری میں مختلف مقامات پر کئی طرح سے مذکور ہے۔ ایک روایت میں ہے۔ ’’تیرے بدن اور تیرے مہمان کا بھی تجھ پر حق ہے‘‘ (باب حق الضیف) کے الفاظ زیادہ ہیں، اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عمرو کو دائمی روزہ رکھنے سے منع فرمایا تو انہوں نے کہا، مجھ میں اس سے زیادہ کی طاقت ہے، تو پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا تم مہینہ میں تین روزے رکھ لیا کرو۔ اللہ تعالیٰ دس گنا اجر دے گا تو یہ تمہارے پورے مہینہ کے روزے ہوجائیں گے۔ سیدنا عبداللہ نے کہا کہ ’’مجھ میں اس سے زیادہ طاقت ہے‘‘ تب آپ نے فرمایا : ’’اچھا ایک دن روزہ رکھو اور دوسرے دن چھوڑ دو۔‘‘ بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جو دائمی روزہ رکھے اس کا کوئی روزہ نہیں‘‘ رہبانیت سے متعلق چند احادیث اور ان سے حاصل ہونے والے نتائج :۔ اس حدیث سے معلوم ہوا (١) کہ مسلسل روزے رکھنا انسان کو اتنا نحیف بنا دیتا ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ کے قابل نہیں رہتا، (٢) اس حدیث سے رہبانیت یا تصوف کے کئی نظریات پر زد پڑتی ہے، ایک نفس کشی یا بدن کو نحیف و نزار بنانے پر اور دوسرے صوفیا کے اس نظریہ پر کہ نفس سے جہاد، جہاد فی سبیل اللہ سے افضل ہے، (٣) ہر وہ عمل جو سنت کے خلاف ہو خواہ کتنا ہی بہتر معلوم ہوتا ہو، مردود ہے۔ ٤۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تین آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے گھر آئے (سیدنا علی، عبداللہ بن عمرو اور عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہم) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے بارے میں پوچھا۔ جب انہیں بتایا گیا تو انہوں نے گویا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی عبادت کو) کم سمجھا اور کہنے لگے، کہاں ہم اور کہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جن کے پہلے اور پچھلے سب گناہ معاف کئے جاچکے ہیں (یعنی ہمیں ان سے زیادہ عبادت کرنی چاہیے) پھر ایک نے کہا :’’میں ہمیشہ رات بھر نماز پڑھوں گا۔‘‘ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا اور کبھی روزہ نہ چھوڑوں گا اور تیسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ عورتوں سے کنارہ کش رہوں گا اور کبھی شادی نہ کروں گا۔ اتنے میں آپ تشریف لے آئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں واپس بلا کر پوچھا کہ ’’کیا تم لوگوں نے یہ اور یہ باتیں کی ہیں؟ اللہ کی قسم! میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور پرہیزگار ہوں۔ اس کے باوجود میں روزہ رکھتا بھی ہوں اور چھوڑتا بھی ہوں' رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، تو جو کوئی میری سنت کو ناپسند کرے اس کا مجھ سے کوئی واسطہ نہیں‘‘ (بخاری، کتاب النکاح، باب الترغیب فی النکاح) اس حدیث میں مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوئیں۔ (١) مجرد زندگی گزارنا، معاشرتی زندگی سے گریز تاکہ یکسوئی سے عبادت کی جاسکے، بدن کو فاقوں مار کر تزکیہ نفس کرنا اور عبادت میں خواہ کیسی ہی افضل نہ ہو، سنت نبوی سے آگے بڑھنا۔ یہ سب باتیں سنت مطہرہ کے خلاف ہیں۔ اگر صرف یہی چیزیں رہبانیت سے نکال دی جائیں تو رہبانیت کی عمارت از خود زمین بوس ہوجاتی ہے۔ (٢) آپ نے سنت کی آخری حد سے مطلع فرما دیا۔ اب جو شخص زہد، تقویٰ اور عبادت کے میدان میں آپ کی مقررہ حدود سے آگے نکلے گا تو وہ بدعت، ضلالت اور کفر ہی ہوگا اور یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ بدعت ہمیشہ نیک ارادوں اور ثواب کی نیت سے ہی شروع کی جاتی ہے۔ (٣) سنت کا تارک گنہگار ہوتا ہے لیکن سنت سے زیادہ عمل کرنے والا جو شریعت کی حدود کو کم سمجھ کر اس میں اضافہ کر رہا ہے۔ وہ بدعتی، گمراہ اور گمراہ کنندہ ہے۔ بعد میں جو لوگ اس بدعت پر عمل پیرا ہوں گے حصہ رسدی اس کا گناہ بدعت جاری کرنے والے کو بھی پہنچتا رہے گا۔ [٥٠] ان رہبانیت اختیار کرنے والوں میں سے بہت سے لوگ گناہ کی آ لودگیوں میں ملوث ہوگئے۔ تھوڑے ہی تھے جو خالصتاً اللہ کی عبادت میں مشغول رہے ان کو ان کے نیک عمل کا اجر مل جائے گا۔