اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ ۖ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا ۖ وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ ۚ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ
خوب جان لو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل تماشا، زینت و آرائش، تمہارا آپس میں ایک دوسرے پر فخر کرنا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ جیسے بارش ہوئی تو اس کی نباتات نے کاشتکاروں کو خوش کردیا پھر وہ جوبن پر آتی ہے پھر تو اسے زرد پڑی ہوئی دیکھتا ہے۔ پھر (آخر کار) وہ بھس بن جاتی ہے۔ جبکہ آخرت میں (ایسی غفلت کی زندگی کا بدلہ) سخت عذاب [٣٥] ہے۔ اور (ایمان والوں کے لئے) اللہ کی بخشش اور اس کی رضا ہے۔ اور دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا سامان ہے
[٣٥] انسانی اور نباتاتی زندگی کا تقابل :۔ اس آیت میں انسان کی دنیاوی زندگی کا نباتات کی زندگی سے تقابل پیش کیا گیا ہے اور بعض مفسرین نے اس زندگی کو چار مراحل میں تقسیم کرکے ان دونوں قسم کی زندگی کا تقابل بتایا ہے۔ مثلاً یہ کہ انسان اپنا بچپن کھیل کود میں گزار دیتا ہے۔ پھر جب اس پر جوانی آتی ہے تو اس کا محبوب مشغلہ اپنے آپ کو بن سنور کر پیش کرنا ہوتا ہے تاکہ اگر وہ مرد ہے تو وہ عورتوں کی توجہ کا مرکز بنے اور عورت ہے تو مردوں کے لیے دلکشی کا باعث ہو۔ پھر جب اس عمر سے گزرتا ہے تو اس کو ''ہمچو ما دیگرے نیست'' قسم کی چیز بننے کی خواہش لاحق ہوتی ہے اور آخری عمر میں اس کی ہوس میں ترقی ہوتی جاتی ہے۔ وہ اپنی ذات کی خوش حالی پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اپنی اولاد کے لیے جان کھپانا شروع کردیتا ہے حتیٰ کہ اسے موت آلیتی ہے۔ نباتات کا بھی یہی حال ہے۔ پیدا ہوتی ہے اپنے کسانوں یا مالکوں کو خوش کرتی ہے اور ان کی کئی توقعات اس سے وابستہ ہوتی ہیں۔ پھر اس پر جوانی کا دور آتا ہے تو ہر ایک کا دل موہ لیتی ہے پھر تھوڑی ہی دیر بعد اس پر بڑھاپا آجاتا ہے اور وہ زرد پڑنے لگتی ہے۔ اور انجام یہ ہوتا ہے کہ اس کا کچھ حصہ جانوروں کی خوراک بنتا ہے باقی پاؤں تلے روندا جاتا ہے اور اس مثال سے سمجھانا یہ مقصود ہے کہ جیسے نباتات کی بہار بھی عارضی چیز ہے اور خزاں بھی۔ اسی طرح انسان کی زندگی کی خوشحالیاں بھی عارضی چیزیں ہیں اور تنگدستی اور مصائب بھی۔ اس کے مقابلہ میں جنت کی بہار اور اس کی تمام تر نعمتیں بھی دائمی اور مستقل ہیں اور اس کی خزاں یعنی جہنم اور اس کا عذاب مصیبتیں بھی دائمی اور مستقل ہیں۔ لہٰذا انسان کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ عارضی اور ناپائیدار چیزوں کے حصول کے بجائے دائمی اور مستقل چیزوں کو اپنا مطمح نظر بنائے اور انہیں کے لیے تمام تر تگ ودو کرے۔ اور جو شخص دنیا کی دلکشیوں میں کھو گیا اور اس کی بہار پر مست ہوگیا وہ بہت بڑے دھوکے میں پڑگیا۔ اصل دانشمندی یہ ہے کہ انسان اس دنیا کی زندگی کو محض کھیل کود سمجھنے کی بجائے اس کا ایک ایک لمحہ قیمتی سمجھے اور اپنی عاقبت کو سنوارنے کی کوشش کرے۔