وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولَٰئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ ۖ وَالشُّهَدَاءُ عِندَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ
اور جو لوگ اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائے ہیں وہی اپنے پروردگار کے ہاں صدیق [٣٢] اور شہید [٣٣] ہیں انہیں (اپنے اپنے اعمال کے مطابق) اجر بھی ملے گا اور روشنی [٣٤] بھی۔ اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلا دیا تو ایسے ہی لوگ اہل دوزخ ہیں۔
[٣٢] صدیق کے دو مفہوم :۔ یعنی جو لوگ سچے دل اور خلوص نیت سے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ صدیق بن جاتے ہیں اور اللہ کے ہاں صدیق ہی شمار ہوتے ہیں۔ صدیق کے معنی و مفہوم میں بڑی وسعت ہے۔ اس کا ایک معنی تو یہ ہے کہ جو کچھ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہتا ہے بلاتامل اس کی تصدیق کردیتے ہیں دوسرا معنی یہ ہے کہ وہ اپنے قول اور وعدوں کے پابند اور اپنے اعمال و افعال میں راست رو اور راست باز ہوتے ہیں۔ جھوٹ، ہیرا پھیری، مکروفریب، جانبداری، بدعہدی اور ایسی ہی دوسری چیزوں سے انہیں نفرت پیدا ہوجاتی ہے۔ [٣٣] صدیق کی گواہی کے دو مفہوم :۔ ایسے ہی صدیق لوگ قیامت کے دن دوسرے لوگوں پر گواہ بنیں گے۔ پھر اس کے بھی دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ انہوں نے اپنے قول اور عمل سے نمونہ بن کر سب لوگوں پر واضح کردیا کہ اللہ اور اس کے رسول پر صحیح طور پر ایمان لانے کے یہ اثرات انسان پر مرتب ہوتے ہیں اور دوسرا یہ کہ وہ قیامت کے دن اللہ کے دربار میں یہ گواہی دیں گے کہ ہم نے فلاں فلاں شخص کو دعوت حق دی تھی اور اس کے رد عمل کے طور پر انہوں نے ایسے ایسے جواب دیئے تھے اور ہمارے خلاف فلاں فلاں مظالم ڈھائے تھے۔ بعض مفسرین اس آیت میں واؤ عاطفہ قرار نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک یہ دو الگ الگ اور مستقل جملے ہیں۔ پہلا جملہ صِدِّیْقُوْنَ پر ختم ہوجاتا ہے اور والشُّھَدَاءُ سے دوسرا جملہ شروع ہوتا ہے۔ اس صورت میں وہ شہداء سے مراد راہ حق میں شہید ہوجانے والے لیتے ہیں۔ میرے خیال میں پہلا مفہوم ربط مضمون سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔ [٣٤] نور سے مراد وہی اعمال صالحہ کی روشنی ہے جس کی تشریح اسی سورۃ کی آیت نمبر ١٢ کے تحت کردی گئی ہے۔