وَمَا لَكُمْ أَلَّا تُنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا يَسْتَوِي مِنكُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ ۚ أُولَٰئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِينَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
اور تمہیں کیا ہوگیا ہے تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ آسمانوں اور زمین کی میراث [١٤] اللہ ہی کے لئے ہے۔ جن لوگوں نے فتح (مکہ) کے بعد خرچ [١٥] اور جہاد کیا وہ ان لوگوں کے برابر نہیں ہوسکتے جنہوں نے فتح سے پہلے خرچ اور جہاد کیا۔ یہی لوگ درجہ میں زیادہ ہیں۔ تاہم اللہ نے ہر ایک سے اچھا وعدہ کیا ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے
[١٤] اللہ کی میراث ہونے کے مختلف پہلو :۔ یعنی جو مال اس وقت تمہارے پاس موجود ہے۔ تمہارے مرنے کے بعد تمہارے وارثوں کی طرف منتقل ہوجائے گا اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔ حتیٰ کہ یہ سب کچھ اللہ کی میراث میں چلا جائے گا۔ اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب تم دنیا میں آئے تھے تو خالی ہاتھ آئے تھے اور جب یہاں سے رخصت ہوگے تو بھی خالی ہاتھ ہی جاؤ گے تو پھر یہ تمہاری ملکیت کیسے ہوئی؟ تم اس سے صرف عارضی طور پر انتفاع کرسکتے ہو۔ اور اس کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ جیسے آج تمہارے پاس یہ مال آگیا ہے۔ ویسے ہی تمہاری زندگی میں تم سے نکل بھی سکتا ہے۔ یہ مال و دولت تو ڈھلتی چھاؤں ہے۔ کبھی ادھر کبھی ادھر۔ لہٰذا جب تک یہ مال تمہاری تحویل میں ہے اسے حقیقی مالک کی مرضی کے مطابق خرچ کرکے اس سے حقیقی فوائد کیوں نہیں حاصل کرتے؟ [١٥] بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ دو آیات فتح مکہ کے بعد اور بقول بعض غزوہ تبوک کے وقت نازل ہوئیں جو مضمون کی مناسبت کے لحاظ سے یہاں رکھی گئیں۔ اور فتح سے مراد بعض علماء نے صلح حدیبیہ لی ہے کیونکہ اللہ نے اسے بھی فتح مبین قرار دیا ہے۔ لیکن اکثریت کے نزدیک اس سے مراد فتح مکہ ہے۔ کیونکہ فتح مکہ کے بعد ہی اسلام کو واضح طور پر کفر پر غلبہ حاصل ہوا تھا۔ تمام عرب قبائل مکہ کے معرکہ پر دیر سے نظریں جمائے بیٹھے تھے کہ اس معرکہ میں قریش مکہ غالب آتے ہیں یا مسلمان؟ اور جو فریق غالب آئے وہ اس کا ساتھ دینے کو منتظر بیٹھے تھے اس فیصلہ کن معرکہ میں جب اسلام کو غلبہ حاصل ہوگیا تو عرب قبائل جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے۔ اب تو یہ واضح بات ہے کہ جن مسلمانوں نے فتح مکہ سے قبل مالی قربانیاں پیش کی تھیں اس کی بنیاد صرف ان کا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدوں پر غیر متزلزل ایمان ہی ہوسکتا ہے ورنہ حالات ان کے حق میں کچھ حوصلہ افزا نہ تھے۔ بلکہ بعض اوقات انتہائی حوصلہ شکن ہوتے تھے۔ ان کے مقابلہ میں جن لوگوں نے فتح مکہ کے بعد مالی قربانیاں دیں ان کے لیے حالات حوصلہ افزا اور امید افزا ہوتے تھے کیونکہ وہ ایک غالب گروہ کا ساتھ دے رہے تھے۔ پھر انہیں غنائم کی صورت میں خرچ کردہ مال سے بہت زیادہ مال واپس مل جانے کی توقع ہوتی تھی اور اکثر اوقات ان کی توقع پوری بھی ہوجاتی تھی۔ لہٰذا ان دونوں کا اجر یکساں نہیں ہوسکتا۔ تاہم فتح مکہ کے بعد خرچ کرنے والوں کو بھی اللہ اچھا ہی اجر عطا فرمائے گا۔ اور جس نیت سے کسی نے خرچ کیا ہو اللہ اس سے خوب واقف ہے۔ لہٰذا جس قدر خلوص نیت اور ایمان کی پختگی کے ساتھ کوئی شخص خرچ کرے گا اللہ تعالیٰ اسی نسبت سے اس کا اجر بڑھاتا جائے گا۔