سورة الرحمن - آیت 76
مُتَّكِئِينَ عَلَىٰ رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَعَبْقَرِيٍّ حِسَانٍ
ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب
جنتی لوگ سبز اور نفیس و نادر [٤٦] قالینوں پر تکیہ لگائے ہوں گے۔
تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی
[٤٦] عبقری کا مفہوم :۔ عَبْقَرِیٍّ عرب کے دور جاہلیت کے انسانوں میں جنوں کے دارالسلطنت کا نام عبقر تھا جہاں صرف جن اور پریاں ہی رہتے تھے جسے ہم اردو میں پرستان بھی کہتے ہیں یعنی پریوں کے رہنے کی جگہ۔ پھر لفظ عبقری کا اطلاق ہر نفیس اور نادر چیز پرہونے لگا تو یا وہ پرستان کی چیز ہے جس کا مقابلہ دنیا کی عام چیزیں نہیں کرسکتیں۔ پھر اس لفظ کا اطلاق ایسے آدمی پر بھی ہونے لگا جو غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک ہو۔ اسی لیے اہل عرب کو جنت کے سروسامان کی غیر معمولی نفاست اور خوبی کا تصور دلانے کے لیے یہاں عبقری کا لفظ آیا ہے۔