وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِيَامًا وَارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا
اور نادانوں کو ان کے مال واپس نہ کرو۔ [٨] جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے سامان زیست کا ذریعہ بنایا ہے۔ ان کے مال سے انہیں کھلاؤ بھی اور پہناؤ بھی اور جب ان سے بات کرو تو اچھی (اور ان کے فائدے کی) بات کرو
[٨] نادان کے حقوق کی ملکیت کی حد :۔ اس آیت میں نادان سے مراد صرف نادان یتیم ہی نہیں بلکہ کوئی بھی فرد ہوسکتا ہے مثلاً چھوٹا بھائی نادان ہے تو بڑا بھائی اسے اس کا مال نہ دے اور چھوٹا عقلمند اور بڑا نادان ہے تو چھوٹا بھائی اس کا مال اس کے تصرف میں نہ رکھے۔ وجہ یہ ہے کہ مال تو ذریعہ قیام زندگی ہے اگر کسی نادان کے ہتھے چڑھ جائے گا تو وہ فضول، ناجائز یا گناہ کے کاموں میں اجاڑ دے گا اور اس کے برے اثرات تمام معاشرہ پر پڑیں گے۔ حقوق ملکیت جو کسی شخص کو اپنی املاک پر ہوتے ہیں اتنے غیر محدود نہیں کہ اگر وہ اس چیز کو صحیح طور پر استعمال کرنے کا اہل نہ ہو تب بھی اس کے حقوق سلب نہ کیے جا سکیں۔ ایسی صورتوں میں اس نادان کا کوئی قریبی رشتہ دار یا حکومت اس کے مال پر تصرف رکھے گی۔ اس کی خوراک اور پوشاک اسے اس کے مال سے مہیا کی جائے اور جو بات اس سے کہی جائے اس کی بھلائی کو ملحوظ رکھ کر کہی جائے۔ اور اگر یتیم کا مال تجارت یا مضاربت پر لگایا جا سکتا ہو تو اسے تجارت پر لگایا جائے اور منافع سے اس کی خوراک اور پوشاک کے اخراجات پورے کیے جائیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ’’یتیموں کا مال تجارت پر لگایا کرو۔ ایسا نہ ہو کہ زکوٰۃ ہی ان کے مال کو کھا جائے۔‘‘ اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ یتیموں کے مال بھی اگر حد نصاب کو پہنچ جائیں تو ان پر بھی زکوٰۃ لاگو ہوگی اور دوسری یہ کہ جہاں تک ممکن ہو یتیموں سے اور ان کے اموال سے خیر خواہی ضروری ہے۔