وَآتُوا الْيَتَامَىٰ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِيثَ بِالطَّيِّبِ ۖ وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَهُمْ إِلَىٰ أَمْوَالِكُمْ ۚ إِنَّهُ كَانَ حُوبًا كَبِيرًا
اور یتیموں کو ان کے مال واپس کردو۔ اور ان کی کسی اچھی چیز کے بدلے انہیں گھٹیا چیز نہ دو، نہ ہی ان کا مال اپنے مال میں ملا کر خود اس سے کھانے کی کوشش کرو۔ یہ بڑی گناہ کی [٤] بات ہے
[٤] یتیم کی سرپرستی اور خیرخواہی :۔ معاشرتی قباحتوں میں سے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے یتیموں کے حقوق کی طرف توجہ دلائی۔ یتیم کی پرورش کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اور یتیم کا سرپرست جنت میں اس طرح ہوں گے۔ پھر آپ نے اپنی شہادت کی اور درمیانی انگلی ذرا کھول کر اشارہ کیا۔ (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب فضل من یعول یتیما) لیکن عرب میں یتیموں کے حقوق کئی طرح سے پامال ہو رہے تھے۔ انہی حقوق کی پامالی کا بالترتیب یہاں ذکر ہو رہا ہے۔ مثلاً جو چیزیں بطور امانت سرپرست کے پاس ہوتیں انہیں واپس کرتے وقت وہ یہ کوشش کرتا کہ اچھی چیز کے بدلے کوئی پرانی اور گھٹیا چیز دے کر خانہ پری کر دے۔ دوسری صورت یہ تھی کہ کھانے پینے کی اشیاء کو ملا جلا لیا جس میں یتیم کو کسر لگانے اور اپنا فائدہ ملحوظ رکھنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ ان دونوں باتوں سے منع کرتے ہوئے ایک اصولی بات بتلا دی کہ جس طریقے سے بھی تم یتیم کا مال کھاؤ۔ بہرحال یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ واضح رہے کہ پہلے یہ حکم دیا گیا تھا کہ یتیم کے کھانے پینے کی اشیاء اپنی اشیاء میں نہ ملاؤ۔ اس طرح بھی یتیم کو بعض دفعہ نقصان پہنچ جاتا تھا۔ مثلاً کھانا زیادہ پک گیا یا جتنا پکا تھا اتنا وہ کھا نہ سکا۔ اس لیے ایسی اشیائے خورد و نوش کو ملانے کی اجازت تو دے دی گئی مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ یتیم کو کسی طرح بھی نقصان نہ پہنچے۔