إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ
بلاشبہ ہم نے ہر چیز [٣٤] کو ایک مقدار سے پیدا کیا ہے
[٣٤] اللہ کا ہر چیز کو اندازے سے پیدا کرنا :۔ یہ آیت اتنا وسیع مفہوم رکھتی ہے جس کی تشریح غالباً انسان سے ناممکن ہے۔ کیونکہ اس میں ایک تو ہر شے کا ذکر آگیا۔ دوسرے قدر یا مقدار یا اندازے کا۔ پھر اس اندازے کے بھی کئی پہلو ہیں۔ تو انسان بیچارہ اس کی کیا تشریح کرسکتا ہے۔ سمجھانے کی خاطر محض ایک دو مثالوں پر ہی اکتفا کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً ایک انسان کے قد کے متعلق اللہ تعالیٰ کا اندازہ یہ ہے کہ عصر حاضر میں اس کا قد چھ فٹ ہو۔ اب اس میں چند انچوں کی کمی بیشی تو ہوسکتی ہے۔ مگر کوئی انسان دگنی خوراک کھا کر چھ فٹ کے بجائے بارہ فٹ کا نہیں ہوسکتا۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ زمین کو اللہ تعالیٰ نے اس اندازے کے مطابق بنایا ہے کہ قیامت تک پیدا ہونے والی مخلوق اس پر بسیرا کرسکے۔ ہر طرح کی مخلوق کی جائے پیدائش، مستقر، مسکن اور مدفن یہی زمین ہو اور ان امور خصوصاً رزق کے لیے کافی ثابت ہو۔ تیسرا پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے دن ہی سے روئے زمین پر اتنا پانی پیدا کردیا پھر اس سے آبی بخارات، بادلوں اور بارشوں کا سلسلہ چلا دیا جو قیامت تک پیدا ہونے والی مخلوق کے لیے کافی ثابت ہو۔ چوتھا پہلو یہ ہے کہ ہر طرح کی مخلوق کو زندہ رہنے کے لیے گرمی کی جس مقدار کی ضرورت ہے اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے سورج پیدا کیا اور اس کو اتنے فاصلہ پر رکھا جو زندگی کی بقا کے لیے مناسب ہو۔ اب اگر سورج میں گرمی زیادہ ہوجائے یا فاصلہ کم ہوجائے تو سب جاندار گرمی سے مرجائیں اور اگر سورج میں گرمی کم ہوجائے یا فاصلہ زیادہ ہوجائے تو سب جاندار سردی سے ٹھٹھر کر مر جائیں۔ اور پانچواں پہلو یہ ہے کہ ہر کام کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ وہ اس سے پہلے نہیں ہوسکتا۔ مثلاً پانی سو درجہ سنٹی گریڈ پر کھولتا ہے۔ جب پانی کو اتنی حرارت ملے گی تب ہی کھولے گا پہلے نہیں۔ غرضیکہ اس آیت کے اتنے زیادہ پہلو ہیں جن کا شمار بھی ممکن نہیں۔ تشریح تو دور کی بات ہے۔