وَلَقَدْ رَاوَدُوهُ عَن ضَيْفِهِ فَطَمَسْنَا أَعْيُنَهُمْ فَذُوقُوا عَذَابِي وَنُذُرِ
اور ان سے ان کے مہمانوں کا مطالبہ کرنے لگے تو ہم نے ان کی آنکھوں کو بے نور [٢٧] بنا دیا (اور کہا) اب میرے عذاب اور میری تنبیہ کا مزا چکھو
[٢٧] عذاب کی نوعیت :۔ ان پر عذاب ڈھانے کے لیے تین فرشتے نہایت خوبصورت نوجوان بے ریش لڑکوں کی شکل میں آئے تھے۔ انہیں دیکھ کر سیدنا لوط علیہ السلام سخت پریشان ہوگئے اور ڈر گئے کہ اس بدکار قوم سے ان مہمانوں کی آبرو کو کیسے بچا سکیں۔ اتنے میں بیوی صاحبہ نے آس پاس کے مشٹنڈوں کو مخبری کردی کہ بہت اچھا مال گھر میں آیا ہے۔ وہ لوگ اوپر سے ہی آپ کے گھر میں گھس آئے۔ سیدنا لوط علیہ السلام نے ان بدبختوں کی بہت منت سماجت کی کہ وہ اپنے برے ارادہ سے باز آجائیں کہ مجھے مہمانوں کے سامنے رسوا نہ کریں۔ جب فرشتوں نے یہ صورت حال دیکھی تو سیدنا لوط علیہ السلام کو علیحدہ لے جا کر صورت حال بتا دی کہ تمہیں ڈرنے اور منت سماجت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہم انسان نہیں بلکہ فرشتے ہیں جو اس قوم پر عذاب نازل کرنے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ پھر جب یہ اوباش اپنی خواہش جنسی پوری کرنے کے لیے ان لڑکوں کی طرف بڑھے تو ان میں سے ایک فرشتے نے ان کی آنکھوں پر ہاتھ پھیر دیا۔ جس سے ان کی بینائی جاتی رہی اور وہ چیخیں مار کر واپس دوڑنے لگے اور نظر نہ آنے کی وجہ سے دروازہ کی طرف بڑھتے ہوئے ایک دوسرے پر گرنے لگے۔ یہ ان پر پہلا اور ہلکا عذاب تھا۔