إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا صَرْصَرًا فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُّسْتَمِرٍّ
ہم نے ایک منحوس [١٨] دن میں ان پر سناٹے کی آندھی چھوڑ دی جو مسلسل چلتی رہی
[١٨] کیا کوئی دن بذات خود نحس یا سعد ہوتا ہے؟:۔ کہتے ہیں کہ یہ دن ماہ شوال کا آخری بدھ تھا جس سے بعض ضعیف الاعتقاد لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ ہر مہینہ کا آخری بدھ منحوس دن ہوتا ہے پھر بعض ضعیف اور موضوع روایات کی بنا پر اس عقیدہ پر کئی حاشیے چڑھائے گئے کہ اس دن سفر نہ کرنا چاہئے۔ کاروبار نہ کرنا چاہئے وغیرہ وغیرہ۔ ایسی سب باتیں خرافات ہیں اور اس کی وجوہ درج ذیل ہیں۔ ١۔ اس مقام پر ﴿فِیْ یَوْمِ نَحْسٍ﴾کا لفظ استعمال ہوا ہے جبکہ سورۃ حٰم السجدہ کی آیت نمبر ١٦ میں ﴿فِیْٓ اَیَّامٍ نَّحِسَاتٍ ﴾کے الفاظ مذکور ہیں۔ اور سورۃ الحاقہ میں یہ صراحت ہے کہ یہ عذاب ان پر مسلسل آٹھ دن اور سات راتیں رہا تھا۔ یعنی بدھ سے عذاب شروع ہوا اور اگلے بدھ تک رہا۔ اس لحاظ سے ہفتہ کے سب ایام ہی نحس ہوئے اور سعد ایک بھی نہ رہا۔ اور اس بات کو کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا۔ ٢۔ ایک ہی دن ایک قوم کے حق میں منحوس ہوتا ہے اور وہی دن دوسری قوم کے حق میں سعد ہوتا ہے۔ مثلاً یہی دن سیدنا ہود علیہ السلام اور آپ کے پیروکاروں کے حق میں سعد تھا۔ جنہیں اللہ نے اس مصیبت سے بچا لیا تھا یا مثلاً دس محرم کا دن فرعون اور آل فرعون کے لیے منحوس تھا مگر یہ دن سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے لیے سعد اور انتہائی خوشی کا دن تھا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے کوئی بھی دن ایسا پیدا نہیں کیا جو سب کے لیے نحس ہو یا سعد ہو۔ یہ نجومی اور سیاروں کے انسانی زندگی پر اثرات تسلیم کرنے والوں کی تقسیم ہے کہ فلاں دن نحس ہے اور فلاں سعد۔ شریعت ایسی تقسیم کو شرک قرار دیتی ہے۔