وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ
اور یہ کہ انسان کے لئے وہی کچھ ہے جو اس [٢٨] نے کوشش کی
[٢٨] قانون جزا وسزا کی دفعات :۔ ان صحیفوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنی جزا و سزا کا قانون پوری طرح بتا دیا تھا جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے مشرکوں سے پوچھا کہ کیا تمہیں اس قانون کی خبر نہیں پہنچی۔ اور اس قانون کی دفعات یہ تھیں جو ان دو آیات میں مذکور ہیں (١) جزا و سزا کا قانون ناقابل انتقال ہے۔ نہ تو یہ ممکن ہے زید بکر کے گناہ اپنے ذمہ لے لے اور اس طرح بکر چھوٹ جائے جیسا کہ مشرکوں نے معاہدہ کیا تھا۔ بلکہ ہر ایک کو اپنے اپنے جرائم کی سزا بھگتنا ہوگی اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ خود زید کی سزا بکر کو دے ڈالے اور زید بچ جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ سے ظلم کی کوئی شکل ممکن نہیں اور (٢) ہر شخص کو اپنے کیے کی جزا و سزا ضرور ملے گی اور اتنی ہی ملے گی جتنا اس نے خود عمل کیا۔ اس سے زیادہ نہیں۔ تاہم کتاب و سنت سے یہ بھی ثابت ہے کہ انسان کے سارے اعمال کا تعلق اس کی زندگی تک محدود نہیں رہتا۔ بلکہ کچھ اعمال ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے اثرات انسان کی زندگی کے بعد بھی باقی رہتے ہیں اور ان کی سزا یا جزا اسے بعد میں ملتی رہتی ہے۔ اور اس کے اعمال نامہ میں اس کا اجر و ثواب لکھا جاتا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے۔ ١۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل موقوف ہوجاتا ہے مگر تین چیزوں کا ثواب جاری رہتا ہے ایک صدقہ جاریہ کا' دوسرے علم کا جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور تیسرے نیک بخت اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی رہے۔‘‘ (مسلم، کتاب الوصیۃ، باب ما یلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ) ٢۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جو آدمی ظلم سے ناحق مارا جاتا ہے اس کے گناہ کا ایک حصہ سیدنا آدم کے بیٹے (پہلے قاتل، قابیل) پر ڈالا جاتا ہے‘‘ اور دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں : ’’اس کے خون کے گناہ کا ایک حصہ۔ کیونکہ روئے زمین پر ناحق خون کی رسم اس نے قائم کی‘‘ (بخاری، کتاب الاعتصام، باب اثم من دعا الی۔۔ سن سنۃ سیئۃ) ٣۔ منذر بن جریر کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس نے اسلام میں کوئی نیک طرح ڈالی اس کے لیے اپنے عمل کا بھی ثواب ہے اور جو لوگ اس کے بعد عمل کریں ان کا بھی ثواب ہے بغیر اس کے کہ ان لوگوں کا ثواب کچھ کم ہو اور جس نے اسلام میں کوئی بری طرح ڈالی اس پر اس کے اپنے عمل کا بھی بار ہے اور ان لوگوں کا بھی جو اس کے بعد اس پر عمل کریں بغیر اس کے کہ ان لوگوں کا بوجھ کچھ کم ہو‘‘ (مسلم، کتاب الزکوٰۃ، باب الحث علی الصدقۃ) ٤۔ جن اعمال کا بدلہ موت کے بعد ملتا رہتا ہے :۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میت پر اس کے گھر والوں کے نوحہ کرنے اور رونے پیٹنے سے عذاب ہوتا ہے۔ اور امام بخاری نے عنوان باب میں یہ صراحت کردی کہ ’’جب نوحہ کرنا میت کے خاندان کی رسم ہو‘‘ (بخاری، کتاب الجنائز۔ باب قول النبی یعذب المیت ببعض بکاء اھلہ علیہ اذا کان النوح من سنتہٖ) یعنی جب نوحہ کرنا میت کے خاندان کی رسم ہو اور اس نے اس سے منع نہ کیا ہو تو وہ عذاب کا مستحق ہوگیا۔ مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ انسان کے کچھ اچھے یا برے عمل ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے اثرات اس کے مرنے کے بعد بھی قائم رہتے ہیں اور ان کا اسے ثواب یا عذاب ملتا رہتا ہے۔ اب درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ٥ـ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے دوران قبیلہ خثعم کی ایک عورت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی : ’’اللہ نے اپنے بندوں پر حج فرض کیا ہے تو ایسے وقت جب کہ میرا باپ بہت بوڑھا ہوچکا ہے۔ وہ اونٹنی پر جم کر بیٹھ بھی نہیں سکتا۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’ہاں‘‘ (بخاری، کتاب المناسک، باب وجوب الحج) ٦۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت آپ کے پاس آئی اور کہنے لگی : میری ماں نے حج کرنے کی منت مانی تھی لیکن وہ حج کرنے سے پہلے مرگئی۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟ آپ نے فرمایا : ’’ہاں کرسکتی ہو۔ بھلا دیکھو اگر تمہاری ماں پر قرضہ ہوتا تو تم اسے ادا نہ کرتی اور اللہ تو ادائیگی کا زیادہ حق دار ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب المناسک ابو اب العمرۃ باب الحج و النذور عن المیت) ٧۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر عرض کیا کہ ’’میری ماں ناگہاں مر گئی اور میں سمجھتا ہوں اگر وہ بات کرسکتی تو ضرور صدقہ دیتی۔ اب اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو اسے ثواب ملے گا ؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ''ہاں'' اور دوسری روایت میں ہے کہ اس شخص نے یہ پوچھا تھا کہ اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو مجھے ثواب ملے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ''ہاں'' (مسلم، کتاب الوصیۃ، باب وصول ثواب الصدقات الی المیت) ٨ ۔ایصال ثواب کا مسئلہ :۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ ’’میرا باپ مرگیا اور مال چھوڑ گیا اور اس نے وصیت نہیں کی۔ اگر میں اس کی طرف سے صدقہ دوں تو اس کے گناہ بخشے جائیں گے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ''ہاں'' (مسلم، کتاب الوصیۃ، باب وصول ثواب الصدقات الی المیت) مذکورہ بالا چار احادیث میں ایسے اعمال کا ذکر ہے جن سے میت کا کوئی تعلق نہیں، بلکہ اس کے لواحقین نے سرانجام دیئے ہیں۔ انہی احادیث سے مشہور و معروف مسئلہ ایصال ثواب مستنبط کیا جاتا ہے جیسا کہ امام مسلم کے عنوان باب سے بھی واضح ہوتا ہے۔ ان احادیث سے درج ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں : ١۔ یہ چاروں احادیث مال و دولت سے تعلق رکھتی ہیں : ٢۔ جن معاملات کا تعلق فرض یا واجب سے ہو ان کو ادا کرنا میت کے لواحقین پر واجب ہے مثلاً میت کے قرض کی ادائیگی، حج اس پر فرض ہو اور وہ نہ کرسکا ہو تو اس کی ادائیگی، اگر کوئی منت مانی ہو تو اس کی ادائیگی اور روزوں کے یا دوسرے کفارے وغیرہ اور وہ دوسرے کے کرنے سے ادا ہوجاتے ہیں۔ ٣۔ اور اگر ان معاملات کا تعلق محض نفلی صدقات سے ہو تو میت کی طرف سے صدقہ کرنا مستحب ہے واجب نہیں اور اس کا ثواب میت کو پہنچ جاتا ہے جیسے میت کو ثواب پہنچانے کے لیے اس کی طرف سے صدقہ و خیرات کرنا وغیرہ۔ ٤۔ ایسے نفلی صدقات کا ثواب میت کو بھی پہنچتا ہے اور صدقہ کرنے والے کو بھی یعنی دونوں کو ملتا ہے۔ بدعت کی تعریف :۔ واضح رہے کہ علماء کی اکثریت اس بات کی قائل ہے کہ ایصال ثواب صرف مالی اور واجب عبادت میں ہی ہوسکتا ہے۔ بدنی اور نفلی عبادات میں نہیں۔ کیونکہ نیابت صرف مالی معاملات میں ہی ہوسکتی ہے بدنی میں نہیں۔ وہ اس کی مثال یوں دیتے ہیں کہ مثلاً ''الف'' نے ''ب'' کا کچھ قرضہ دینا ہے اور ''الف'' کی جگہ اگر کوئی دوسرا شخص مثلاً ''ج'' ''ب'' کو ''الف'' کا قرض ادا کردیتا ہے تو اس کا قرض ادا ہوگیا لیکن اگر ''الف'' کو مثلاً بھوک لگی ہے تو اس کی یہ بھوک تب ہی دور ہوسکتی ہے جب وہ خود کھانا کھائے کسی دوسرے کے کھانا کھانے سے ''الف'' کی بھوک کبھی دور نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا ایصال ثواب کا تعلق بھی انہی معاملات سے ہوسکتا ہے جن میں نیابت ہوسکتی ہے۔ اور بعض علماء کے نزدیک روزوں کی قضا بھی دی جاسکتی ہے اور کفارہ بھی ادا کیا جاسکتا ہے۔ گویا یہ بھی حج کی طرح مالی عبادت بھی ہے اور بدنی بھی۔ البتہ نمازوں کی نہ قضا دی جاسکتی ہے نہ ہی ان کا کوئی کفارہ ہے۔ اور یہ ہے بھی خالص بدنی عبادت، رہا ایصال ثواب کا مسئلہ تو اس کا تعلق مالی عبادت یعنی صدقہ اور قربانی وغیرہ تک محدود ہے۔ نمازوں یا نفلی روزوں یا نفلی حج و عمرہ سے ایصال ثواب کا تصور درست نہیں۔ اسی طرح قرآن خوانی کی رسم یا رسم قل یا تیجہ یا پانچواں یا دسواں یا چالیسواں یہ سب رسوم باطل اور بدعت ہیں۔ ان کے جواز میں عموماً یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ یہ سب بھلائی کے کام ہیں۔ ان میں یا قرآن خوانی ہوتی ہے یا میت کی طرف سے کچھ صدقہ کیا جاتا ہے۔ لہٰذا ان کا بھی ثواب میت کو پہنچنا چاہئے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بدعت کے سارے کام ہی بھلائی کے کام سمجھ کر شروع کیے جاتے ہیں۔ آج تک کسی نے کوئی کام برا سمجھ کر بدعت نہیں نکالی۔ دیکھنا صرف یہ چاہئے کہ دور نبوی یا دور صحابہ میں وہ کام ہوا ہے یا نہیں؟ نیز یہ کہ کیا اس دور میں یہ کام کرنے میں کوئی رکاوٹ موجود تھی؟ پھر جب اس دور میں کوئی رکاوٹ بھی موجود نہ ہو اور اس کے باوجود صحابہ نے وہ کام نہ کیا ہو اس کو اگر کار ثواب یا دین کا حصہ بنا لیا جائے تو وہ یقیناً بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی اور اس کا انجام جہنم ہے۔ بدعت کی اقسام :۔ پھر بعض لوگوں نے تو اس بدعت کی بھی وہی پانچ قسمیں بنا ڈالی ہیں جو تکالیف شرعیہ کی ہیں۔ یعنی کچھ بدعتیں واجب ہیں، کچھ مستحب، کچھ مباح کچھ مکروہ اور کچھ حرام اور بعض لوگوں نے صرف دو قسمیں بنائی ہیں۔ بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بدعت کی کوئی تقسیم بیان نہیں فرمائی اور علی الاطلاق فرمایا کہ ہر طرح کی بدعت گمراہی ہے۔ یہ حضرات بدعت حسنہ یا واجب بدعت کی مثال یہ دیتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن کو جمع نہیں کیا تھا بعد میں سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جمع کیا اور بدعت مستحب کی مثال تراویح کی نماز باجماعت ہے۔ جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے شروع کرائی تھی اور تراویح کی جماعت دیکھ کر فرمایا تھا کہ نعم البدعۃ ھذہٖ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جو کام دور صحابہ میں اجماع سے طے پا گیا اس پر بدعت کا اطلاق ہوتا ہی نہیں اور اس کی تفصیل یہ ہے قرآن کو جمع کرنا گمراہی کو روکنے کے لیے کیا گیا تھا جیسے کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے اور ایسی ضرورت کو استصلاح کہتے ہیں بدعت حسنہ یا بدعت واجبہ کا نام نہیں دیا جاسکتا اور تراویح کی جماعت کی اصل دور نبوی میں ثابت ہے۔ نماز تراویح بھی اور اس کی جماعت بھی آپ نے تین دن کرائی تھی۔ اور سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے اسے بدعت کا نام دیا تو یہ لغوی معنی کے لحاظ سے تھا شرعی اصطلاح کے لحاظ سے نہ تھا۔ بدعت کی شرعی تعریف یہ ہے۔ ''مَنْ اَحْدَثَ فِی اَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہ، فَھُوَرَدّ'' (مسلم، کتاب الاقضیہ۔ باب نقض الاحکام الباطلۃ ورد محدثات الامور) (یعنی جس کسی نے ہمارے اس دین کے کام میں کوئی نئی بات نکالی جس کی اصل اس میں موجود نہ تھی وہ مردود ہے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس ارشاد مبارک میں اپنے ساتھ اپنے صحابہ کو بھی شریک کیا۔ لہٰذا بدعت کا اطلاق اس کام پر ہوگا جس کا وجود دور صحابہ میں نہ ملتا ہو اور اس کام کے کرنے میں کوئی رکاوٹ بھی نہ ہو اور اسے دین اور ثواب کا کام سمجھ کر کیا جائے۔ بعض اہل بدعت یہ مغالطہ بھی دیتے ہیں کہ دو رنبوی یا دور صحابہ میں مسجدوں میں نہ کلاک لگائے جاتے تھے نہ قالین یا میٹ یا بلب یا ٹیوبیں یا صفیں بچھائی جاتی تھیں اور یہ کام دین کا اور ثواب کا کام سمجھ کر کیے جاتے ہیں تو کیا یہ بدعت ہوں گے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان چیزوں کا تعلق ایجادات سے ہے شریعت سے نہیں اور یہ چیزیں اس دور میں موجود ہی نہ تھیں۔ اور بدعت کی تعریف یہ ہے کہ جو چیز اس دور میں ہوسکتی ہو مگر اس کے باوجود آپ نے یا صحابہ نے نہ کی ہو وہ بدعت ہے۔