أَمْ يَقُولُونَ تَقَوَّلَهُ ۚ بَل لَّا يُؤْمِنُونَ
یا (پھر) یہ کہتے ہیں کہ اس نے اسے خود ہی بنا ڈالا [٢٦] ہے۔ (بات یہ نہیں) بلکہ یہ ایمان لائیں گے ہی نہیں
[٢٦] قرآن سے متعلق قریش کے آپ پر الزامات :۔ ان کے منجملہ الزامات سے ایک یہ بھی تھا کہ قرآن اس نے خود تصنیف کر ڈالا ہے اور پھر اسے اللہ کی طرف منسوب کردیتا ہے۔ اور کبھی یہ کہہ دیتے کہ قرآن کسی عجمی عالم سے سیکھ کر ہمیں سنا دیتا ہے اور کہہ دیتا ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ انہیں یہ الزام لگاتے وقت اتنی بھی شرم نہ آئی کہ جس شخص نے زندگی بھر کسی سے جھوٹ نہ بولا ہو۔ کسی پر الزام نہ لگایا ہو، کسی سے فریب نہ کیا ہو، کیا وہ اللہ پر ایسا الزام لگا سکتا ہے؟ پھر انہوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ اس کا کلام تو ہم نبوت سے پہلے بھی سنتے رہے ہیں اور نبوت کے بعد وہ صرف اللہ کا کلام ہی نہیں سناتا اور بھی بہت سی باتیں کرتا ہے۔ تو کیا اس کے کلام میں اور اللہ کے کلام میں انہیں کچھ بھی فرق محسوس نہیں ہوتا، اصل معاملہ یہ ہے کہ ان کی عقلیں تو ٹھیک کام کرتی ہیں مگر ان کی نیتوں میں فتور ہے جس کی وجہ سے انہوں نے یہ تہیہ کر رکھا ہے کہ وہ کسی قیمت پر ایمان نہیں لائیں گے۔